اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس: غزہ توجہ کا مرکز، عالمی منظر نامہ مایوس کن

اقوام متحدہ کے اجلاس میں ایک رہنما کے بعد دوسرے نے یوکرین، غزہ اور سوڈان کی جنگوں، ماحولیاتی مسائل، اقوام متحدہ کے فیصلوں میں شرکت کی کمی اور غریب ممالک کی خوراک کی کمی پر بات کی۔

دنیا بھر کے رہنما نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے لیے جمع ہیں اور وہاں کی صورت حال کی عکاسی کے لیے یہ کہنا کافی ہے کہ ماحول کافی ’مایوس کن‘ ہے۔

رہنماؤں نے یوکرین، غزہ اور سوڈان کی جنگوں، ماحولیاتی مسائل، اقوام متحدہ کے فیصلوں میں شرکت کی کمی اور غریب ممالک میں خوراک کی کمی پر بات کی۔

اُردن کے بادشاہ عبداللہ دوم نے کہا: ’مجھے نہیں یاد کہ اس سے زیادہ خطرناک وقت کبھی آ یا ہو۔‘

چند مقررین، جن میں امریکی صدر جو بائیڈن بھی شامل ہیں، نے مستقبل کے لیے امید کا پیغام دینے کی کوشش کی۔

ان کا کہنا تھا: ’ہم اپنی سوچ سے زیادہ مضبوط ہیں۔ ہم اکیلے کے بجائے مل کر زیادہ مضبوط ہیں اور جسے لوگ ناممکن کہتے ہیں وہ صرف ایک سراب ہے۔‘

غزہ جنگ کے رد عمل میں یکطرفہ عمل پر امریکہ کو ڈھکے چھپے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اقوام متحدہ میں کیا ہوا؟

غزہ جارحیت

بہت سے نمائندوں کی تقاریر میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر توجہ مرکوز کی گئی۔

اردن کے بادشاہ عبداللہ نے کہا کہ اسرائیل کے حملے انسانی حقوق کے تحفظ کے بین الاقوامی نظام کے اہم حصے کو کمزور کر رہے ہیں۔

انہوں نے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپوں اور سکولوں پر بمباری، اقوام متحدہ کے کارکنوں کی مدد کرنے میں ناکامی اور اس تنازعے میں انسانی کارکنوں کے دب جانے کی مثالیں دی۔

فلسطینیوں کے اردن میں نئے گھر تلاش کرنے کے خیال کے بارے میں انہوں نے کہا کہ زبردستی بے گھر کرنا ایک جنگی جرم ہے اور ’یہ کبھی نہیں ہوگا۔‘

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اقوام متحدہ کو ایک ’غیر فعال، بے قاعدہ اور سست ڈھانچہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’بین الاقوامی امن اور سلامتی اتنی اہم ہیں کہ انہیں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کی خود مختاری پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔‘

انہوں نے مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل کو اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنی چاہییں اور جنرل اسمبلی کو چاہیے کہ غزہ میں فوری فائر بندی، قیدیوں کے تبادلے اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ ترسیل کے لیے طاقت کے استعمال کی سفارش کرے۔

برازیل کے صدر لوئز انیسیو لولا ڈا سلوا نے کہا کہ ’اپنے دفاع کا حق انتقام کے حق میں تبدیل ہوگیا ہے، جس سے قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ نہیں ہو رہا اور فائر بندی میں تاخیر ہو رہی ہے۔‘

صدر جو بائیڈن نے فائر بندی اور قیدیوں کی واپسی کے لیے اپنے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ ’مکمل جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔‘

ایران

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں، ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے اپنے پیش روؤں کی نسبت کچھ زیادہ متوازن لہجہ اپنایا۔

ان کا کہنا تھا: ’میں اپنے ملک کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کے لیے ایک مضبوط بنیاد رکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں، جس سے ایران کو ترقی پذیر عالمی نظام میں مؤثر اور تعمیری کردار ادا کرنے کے قابل بنانا ہے۔‘

مسعود پزشکیان ایک دل کے سرجن ہیں، جو اصلاح پسند رہنما کے طور پر منتخب ہوئے اور انہوں نے جولائی میں عہدہ سنبھالا تھا۔

ضمنی سرگرمیاں

اسرائیل کے نمائندے نے کہا کہ ان کا ملک لبنان میں فوجیں بھیجنا نہیں چاہتا لیکن عسکری تنطیم حزب اللہ کی راکٹ فائرنگ کو روکنے کے لیے ’ضروری اقدامات‘ کرے گا۔ اس راکٹ فائرنگ کی وجہ سے  ہزاروں اسرائیلی اپنے ملک کے شمال سے نکل گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سفیر ڈینی ڈینن نے کہا: ’ہم ایک سفارتی حل کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن اگر اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا تو ہم دوسرے طریقے استعمال کر رہے ہیں تاکہ دوسری طرف کو یہ بتا سکیں کہ ہم سنجیدہ ہیں۔‘

وائٹ ہاؤس کے نائب قومی سلامتی کے مشیر جان فائنر نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کے عہدیدار اپنے اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں تاکہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے۔

جان فائنر نے نیوز سائٹ ’ایکسیوس‘ کے زیر اہتمام ایک تقریب میں کہا کہ ’ہم اس پر نیویارک میں اور دنیا کے دیگر دارالحکومتوں میں کام کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا کہ آیا یہ لڑائی پہلے ہی اس مکمل جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے، جس سے امریکہ چاہتا ہے کہ اسرائیل لبنان کے ساتھ لڑنے سے بچے، خاص طور پر جب وہ تقریباً ایک سال سے غزہ میں جاری تنازعے میں مصروف ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایک ’بڑی جنگ‘ یا ’وسیع جنگ‘ نہ تو اسرائیل کے مفاد میں ہے اور نہ ہی لبنان کے مفاد میں۔

ماحولیاتی لمحہ

نیویارک میں جو بائیڈن کی ماحولیاتی تقریر کے لیے ان کا تعارف کرواتے ہوئے، اداکارہ اور کارکن جین فونڈا نے کچھ الفاظ تبدیل کیے، کچھ غلطی سے اور کچھ جان بوجھ کر، تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کی طرف توجہ دلائی جا سکے۔

بائیڈن کے ’انفلیشن ریڈکشن ایکٹ‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے، فونڈا نے غلطی سے اسے ’انفلیمیٹڈ ریڈکشن ایکٹ‘ کہہ دیا اور پھر درست کرتے ہوئے کہا کہ عالمی درجہ حرارت کے مدنظر انفلیمیٹڈ بھی صحیح ہے۔

پھر جب انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بننے والے فوسل فیول کے بارے میں بات کی، تو فونڈا نے بے باکی سے کہا کہ ’قدرتی گیس کو بھول جائیں، اس میں کچھ بھی قدرتی نہیں ہے اور یہ لوگوں اور ماحول کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔‘

وہ آوازیں جو شاید آپ نے نہیں سنیں

افریقہ کے کئی رہنما اس سال دوبارہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نمائندگی کی کمی پر شکایت کر رہے ہیں۔

جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے کہا کہ ’افریقہ اور اس کے 1.4 ارب لوگ اس کے اہم فیصلہ سازی کے ڈھانچے سے باہر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو فوری طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس میں مزید ممالک کی شمولیت ہونی چاہیے تاکہ تمام ممالک کی آوازیں سنی اور سمجھی جا سکیں۔‘

ایل سلواڈور کے صدر نائیب بُکلی نے اپنے ملک کی سکیورٹی میں بہتری کا دعویٰ کیا، جو اس چھوٹے وسطی امریکی ملک کو دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک سے محفوظ ترین ممالک میں منتقل کر رہے ہیں۔

بکلی کو فروری میں اپنے اچھے سکیورٹی ریکارڈ کی بنیاد پر غیر معمولی طور پر دوسری مدت کے لیے بھاری اکثریت سے دوبارہ منتخب کیا گیا۔

انہوں نے ملک میں طاقتور سمجھے جانے والے گینگز کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

ذرائع ابلاغ میں مہارت رکھنے والے نوجوان رہنما 81 ہزار سے زیادہ لوگوں کو ایک ایمرجنسی حالت کے تحت قید کر چکے ہیں، جو کہ 2.5 سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے اور اس کے تحت کچھ بنیادی حقوق معطل ہیں۔

بکلی نے کہا کہ ’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ہزاروں افراد کو قید کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے لاکھوں کو آزاد کیا ہے۔ اب اچھے لوگ آزاد ہیں، بغیر خوف کے اور ان کے حقوق اور انسانی حقوق مکمل طور پر قابل احترام ہیں۔

’سکیورٹی صرف مضبوط فوجوں اور بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیار رکھنا نہیں ہے۔ حقیقی سکیورٹی صرف اعتماد، برابری اور تمام لوگوں کی خوشحالی کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔‘

شاید آپ کو معلوم نہ ہو

اقوام متحدہ کے 193 ممالک میں سے برازیل کو جنرل اسمبلی کی بڑی سالانہ بحث میں منگل کو پہلے بولنے کا موقع ملا، جیسا کہ یہ اقوام متحدہ کے ابتدائی دنوں سے ہی ہوتا آ رہا ہے۔

ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیوں کہ برازیل نے اُس وقت پہلے بولنے کی پیشکش کی تھی جب کوئی اور ملک ایسا نہیں کر رہا تھا۔ ایک روایت شروع ہوئی۔ امریکہ عام طور پر دوسرے نمبر پر بولتا ہے کیونکہ اقوام متحدہ کا ہیڈکوارٹر نیویارک میں واقع ہے۔

باقی ممالک کے بولنے کا وقت مختلف عوامل کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے، بشمول بولنے والے کا عہدہ (جیسے کہ ریاست کا سربراہ یا کابینہ کے رکن)، ممالک کی اپنی ترجیحات اور جغرافیائی توازن۔

ایک قابل ذکرعدد

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے منگل کو اپنے افتتاحی خطاب میں ’بے باکی‘ کا لفظ پانچ بار استعمال کیا۔

اقتباسات

امریکی صدر نے کہا: ’میرے عزیز رہنماؤں ہمیں کبھی بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کچھ چیزیں اقتدار میں رہنے سے زیادہ اہم ہیں۔ آپ کے لوگ سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ کبھی نہ بھولیں، ہم یہاں لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے ہیں، نہ کہ اس کے برعکس۔‘

جو بائیڈن نے اپنے اس فیصلے کا اعادہ کیا کہ وہ دوبارہ انتخاب نہیں لڑیں گے، جس کی وجہ سے انہیں لوگوں کی جانب سے تالیوں سے پذیرائی ملی۔

انہوں نے اس موقع پر تمام رہنماؤں خاص طور پر وہ جو خود مختار ہیں، کو یہ یاد دلایا کہ انہیں ذاتی طاقت سے زیادہ جمہوریت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ان ممالک کے بارے میں بات کرتے ہوئے، جو ان کے مطابق اسرائیل کی بلا سوچے سمجھے حمایت کرتے ہیں، کہا: ’غزہ میں صرف بچے نہیں مر رہے ہیں، اقوام متحدہ کا نظام بھی مر رہا ہے، سچائی مر رہی ہے، وہ اقدار بھی مر رہی ہیں جن کی حفاظت کا دعویٰ مغرب کرتا ہے، ایک ایک کر کے وہ امیدیں بھی مر رہی ہیں جو انسانیت کو ایک زیادہ منصفانہ دنیا میں زندہ رہنے کی خواہش رکھتی ہیں۔‘

یوکرینی صدر وولودی میر زیلنسکی بدھ کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے جبکہ سکیورٹی کونسل لبنان کی صورت حال پر ایک اجلاس بھی منعقد کرے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا