پاکستان سمیت 124 ممالک کی حمایت سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بدھ کو ایک قرار منظور کی جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنی ’غیر قانونی موجودگی‘ ایک سال کے اندر ختم کرے۔
اس قرار داد کی عدم تعمیل کے نتیجے میں اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق 193 رکنی عالمی ادارے میں 124 ممالک نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیا جب کہ 14 نے مخالفت کی اور 43 ممالک نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔ قرار داد کی مخالفت کرنے والوں میں اسرائیل کا قریب ترین اتحادی امریکہ بھی شامل تھا۔
یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں منظور کی گئی ہے جب غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو ایک سال مکمل ہونے والا ہے اور مغربی کنارے میں تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔
غزہ میں فائر بندی کے معاہدے کے لیے کوششیں جاری ہیں اور امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بدھ کو مصر میں اسی سلسلے میں ساتھی ثالثوں سے ملاقات کی۔ دوسری جانب خطے کے دیگر حصوں میں ہونے والے حملوں سے مشرق وسطیٰ میں تنازعات میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے اس قرارداد کو ’آزادی اور انصاف کے لیے اپنی جدوجہد میں ایک اہم موڑ‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے یہ واضح پیغام جاتا ہے کہ ’اسرائیل کا قبضہ جلد از جلد ختم ہونا چاہیے اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کا احساس کیا جانا چاہیے۔‘
دوسری جانب اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے اس رائے شماری کو ’ایک شرمناک فیصلہ قرار دیا جو فلسطینی اتھارٹی کی سفارتی دہشت گردی کی پشت پناہی کرتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈینی ڈینن کا مزید کہنا تھا کہ ’سات اکتوبر 2023 کے قتل عام کا ایک سال پورا ہونے پر، جنرل اسمبلی حماس کی مذمت کرنے اور باقی 101 قیدیوں کی رہائی کی درخواست کرنے کی بجائے فلسطینی اتھارٹی کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی حماس کے قاتلوں کی حمایت کرتی ہے۔‘
امریکہ کے اقوام متحدہ میں مشن نے اس قرارداد کو ’یکطرفہ‘ قرار دیا اور اس کی ناکامی کی طرف اشارہ کیا کہ یہ تسلیم نہیں کرتی کہ حماس، جو کہ ’دہشت گرد تنظیم‘ ہے، اب بھی غزہ میں طاقت رکھتی ہے اور یہ بھی کہ اسرائیل کو دہشت گردی کے حملوں سے دفاع کا حق ہے۔
امریکہ نے کہا کہ ’یہ قرارداد فلسطینیوں کے لیے زیادہ بہتری نہیں لائے گی۔ درحقیقت یہ غزہ میں تنازعے کے خاتمے کی کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتی ہے اور اسرائیل کے حقیقی سلامتی کے خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے دو ریاستی حل کی جانب دوبارہ متحرک اقدامات میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔‘
اگرچہ یہ قرارداد قانونی طور پر پابند نہیں بناتی ہے، لیکن اس کی بھرپور حمایت عالمی رائے کی عکاسی کرتی ہے۔ 15 رکنی سلامتی کونسل کے برعکس جنرل اسمبلی میں ویٹو کا استعمال نہیں ہوتا۔
قرارداد میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام اسرائیلی افواج اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے آباد کار ’بغیر کسی تاخیر‘ کے نکل جائیں اور اس میں ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ان پر پابندیاں عائد کریں جو اسرائیل کی موجودگی کو علاقوں میں برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں اور اگر استعمال کا شبہ ہو تو اسرائیل کو اسلحے کی برآمد روک دیں۔
اس کے علاوہ قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے قبضے سے ہونے والے نقصانات کی تلافی فلسطینیوں کو ادا کرے اور ممالک پر زور دیا کہ وہ ان علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی کو برقرار رکھنے والی تجارت یا سرمایہ کاری کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔
قرار داد منظور کرنے کا اقدام جولائی میں عالمی عدالت انصاف کے ایک فیصلے کے جواب میں سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی غیر قانونی ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے۔
عدالت کی رائے بھی قانونی طور پر پابند نہیں بناتی ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے 1967 کی جنگ کے دوران قبضہ کی گئی زمینوں پر اسرائیل کی حکمرانی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو ان علاقوں پر خودمختاری کا کوئی حق نہیں ہے اور وہ طاقت کے ذریعے زمین حاصل کرنے کے خلاف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد پر غور کا آغاز منگل کو ہوا اور فلسطینی سفیر ریاض منصور نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی ملک جو یہ سمجھتا ہے کہ فلسطینی عوام ’غلامی کی زندگی قبول کریں گے‘ یا جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے منصفانہ حل کے بغیر امن ممکن ہے، وہ ’حقیقت پسندانہ رویہ اختیار نہیں کر رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ حل 1967 کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد فلسطینی ریاست ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو، جو اسرائیل کے ہمسائے میں امن اور سلامتی کے ساتھ ہو۔
ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے قبضے کے خاتمے کے مطالبے پر توجہ دے۔
قرارداد میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش سے کہا گیا کہ وہ جنرل اسمبلی کو تین ماہ کے اندر اس قرارداد پر عمل درآمد کے بارے میں رپورٹ پیش کریں، جس میں ’اسرائیل، دیگر ریاستوں اور بین الاقوامی تنظیموں، بشمول اقوام متحدہ کے اقدامات شامل ہوں۔‘
انتونیو گوتیریش نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’ہم عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کے پوری طرح پابند ہیں۔ میں اس حوالے سے جنرل اسمبلی کے کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد کروں گا۔‘
فلسطینی سفیر ریاض منصور نے کہا کہ زیادہ تر امکان ہے کہ اسرائیل اس قرارداد پر توجہ نہیں دے گا اور اس کے بعد فلسطینی ایک اور مضبوط قرارداد لائیں گے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی(اے ایف پی) کے مطابق اقوام متحدہ میں فلسطینی وفد نے اس قرارداد کو ’تاریخی‘ قرار دیا ہے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تنازع سات اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوا جب حماس نے اسرائیل میں گھس کر کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں سرکاری اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق 1205 افراد مارے گئے۔
اس دن 251 افراد کو قیدی بنا کر غزہ لے جایا گیا، جن میں سے 97 اب بھی غزہ کی پٹی کے اندر قید ہیں، جن میں سے 33 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ مارے گئے ہیں۔
اس کے بعد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں وزارت صحت کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک 41 ہزار 272 سے زائد فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں، خواتین اور بچوں کی ہے۔
اقوام متحدہ نے غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کو قابل اعتماد تسلیم کیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق 27 اکتوبر کو غزہ پر زمینی حملے کے آغاز سے اب تک اس کے 348 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔