پنجاب ہاؤس کی لیز بھی ختم لیکن پختونخوا ہاؤس ہی سیل کیوں؟

پختونخوا ہاؤس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ سی ڈی اے کے کن قوانین کی خلاف ورزی پر اسے سیل کیا گیا ہے؟ کیا دوسرے صوبوں کے ہاؤسز بھی انہی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں؟

دو روز قبل اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع پختونخوا ہاؤس کو کیپیٹل ڈولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے ’بلڈنگ رولز کی خلاف ورزی‘ کرنے پر سیل کیا گیا جس کے خلاف آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کے سیکرٹری ایڈمنسٹریشن کی جانب سے درخواست جمع کروائی گئی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ صوبائی حکومت کی پراپرٹی کو غیر قانونی طور پر سیل کیا گیا لہذا اسے فوراً ڈی سیل کیا جائے۔

پختونخوا ہاؤس کو سات اکتوبر کو ایسے وقت میں سیل کیا گیا جب اس سے دو روز قبل پانچ اکتوبر کو صوبے کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے یہاں ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں، جس کے بعد اسلام آباد پولیس اور رینجرز کی جانب سے خیبر پختونخوا ہاؤس کے احاطے کا سرچ آپریشن بھی کیا گیا اور بعد ازاں علی امین کی موجودگی سے متعلق متضاد خبریں سامنے آئیں۔

اس کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر پختونخوا ہاؤس کے دائرہ اختیار سے متعلق سوالات اٹھائے جانے لگے۔

پختونخوا ہاؤس (بشمول دیگر ہاؤسز کے) کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ سی ڈی اے کے کن قوانین کی خلاف ورزی پر اسے سیل کیا گیا ہے؟ کیا دوسرے صوبوں کے ہاؤسز بھی انہی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں؟ انڈپینڈنٹ اردو نے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔

سی ڈی اے بلڈنگ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل فیصل نعیم نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ سی ڈی اے آرڈیننس 1960 اسلام آباد بلڈنگ کنٹرول 2023 کے مطابق شہر کی حدود میں پیشگی منظوری کے بغیر کوئی تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ ’پختونخوا ہاؤس کی انتظامیہ نے پانچ بلاکس کی غیر قانونی تعمیر کی جس کی پیشگی اجازت انتظامیہ سے نہیں لی گئی۔‘

ڈائریکٹر جنرل کے مطابق پختونخوا ہاؤس کی لیز کی معیاد سال 2008 کے بعد ختم ہو چکی ہے جس کے بعد ادارے نے سال 2014، 2018، 2019 اور رواں سال اسے شوکاز نوٹس ارسال کیے تاہم ان کی جانب سے ان نوٹسز کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

فیصل نعیم نے بتایا کہ پختونخوا ہاؤس کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے۔ اس سوال پر کہ جب پانچ بلاکس کی تعمیر غیر قانونی ہے تو اسے گیٹ سمیت مکمل طور پر سیل کیوں کیا گیا؟ انہوں نے بتایا کہ ’رسائی کو روکنے کے لیے اسے بھی سیل کیا گیا ہے۔‘

کیا بلڈنگ قوانین کی خلاف ورزیاں دیگر ہاؤسز یعنی پنجاب ہاؤس، سندھ ہاؤس اور بلوچستان ہاؤس میں بھی کی گئی ہیں؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سندھ ہاؤس اور پنجاب ہاؤس نے بھی بلڈنگ قوانین کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔

’جہاں ایک جانب سندھ ہاؤس کی انتظامیہ ان خلاف ورزیوں پر کیے گئے جرمانہ ادا کر چکا ہے اور لیز ریگولرائز کروا کر توسیع لے چکا ہے، وہیں دوسری جانب پنجاب ہاؤس انتظامیہ بلڈنگ قوانین کی خلاف ورزیوں کے معاملے پر سی ڈی اے سے رابطے میں ہے۔‘

ڈائریکٹر جنرل نے انکشاف کیا کہ پنجاب ہاؤس کی لیز بھی ختم ہو چکی ہے، تاہم اس حوالے سے ادارے کے ساتھ وہ ’لوپ میں ہیں اور صورتحال کو سدھارنے کے لیے تیار ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ بلوچستان ہاؤس نے بلڈنگ قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پختونخوا ہاؤس کے احاطے میں رہائش پذیر سرکاری ملازمین کو کوارٹرز خالی کرنے کے لیے 24 گھنٹے کی مہلت دی گئی تھی۔

کیا یہ رہائشی کوارٹرز بھی غیر قانونی تعمیر کردہ تھے، اور یہ خلاف ورزی کیا تھی؟ اس سوال پر فیصل نعیم نے بتایا کہ ’اجازت کے بغیر بنائی گئی ہر چیز خلاف ورزی ہو گی اور ہاؤس کا ماسٹر دستاویز لیز ہوتا ہے، جس کی معیاد ختم ہو چکی ہے۔‘

ڈائیریکٹر جنرل کے مطابق ’جب لیز کی مدت معیاد ختم ہو جائے تو وہ متعلقہ ادارے کی ملکیت نہیں رہتی بلکہ سی ڈی اے کی تحویل میں آ جاتی ہے۔‘

بلوچستان ہاؤس، پنجاب ہاؤس اور سندھ ہاؤس پختونخوا ہاؤس کے بالکل قریب واقع ہیں۔ یاد رہے یہ ہاؤسز متعلقہ صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، یہاں صوبائی حکومت کے ملازمین ہوتے ہیں جن میں ایڈمن، سپورٹ سٹاف، کچن سٹاف اور سکیورٹی کے اہلکار شامل ہیں۔ تمام تعینات عملہ صوبائی حکومت یعنی وزیر اعلیٰ کے زیر انتظام ہوتا ہے، انہی کا دفتر تمام امور کی نگرانی کرتا ہے، جبکہ اس کی حدود میں دیگر صوبوں یا وفاق کی حکومتیں بغیر اجازت مداخلت نہیں کر سکتیں۔

پختونخوا ہاؤس میں صوبے کے سرکاری افسران اور اس کی انتظامیہ کے مہمان بھی قیام کر سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان