چھاتی کا سرطان: معاشرے کو مل کر مقابلہ کرنا ہو گا

پاکستان میں چھاتی کا کینسر جتنی تشویش ناک تیزی سے پھیل رہا ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پورے معاشرے کو آگے بڑھ کر مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔

نو اکتوبر، 2021 کو کراچی میں چھاتی کے سرطان سے آگاہی کے مہینے کے موقعے پر پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کو گلابی روشنی میں رنگ دیا گیا (اے ایف پی)

انڈیا کی معروف اداکارہ حنا خان نے حال ہی میں اپنے مداحوں کو اس بات کی اطلاع دی کہ وہ چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہیں اور اس وقت وہ اپنی کیمیو تھیراپی کروا رہی ہیں۔

حنا خان اس وقت انڈیا اور پاکستان کی پسندیدہ ٹی وی بہو بنیں جب ڈراما ’یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے‘ میں وہ آکشرا کے کردار میں نظر آئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں اور ایک معصوم سی تابعدار بہو کا کردار دلوں میں گھر کر گیا۔

اس کے بعد حنا پر کامیابیوں کے دروازے کھل گئے۔ اب جب ان کو کینسر جیسا موذی مرض تشخیص ہوا، تو انہوں نے اس بات کو پبلک کے ساتھ شئیر کیا تاکہ اس مرض کے بارے میں آگاہی پھیل سکے۔

ان کی طرف یہ پوسٹ آنے کے بعد بہت سے لوگ ان کی صحت کے لیے دعاگو ہو گئے، دوسری طرف یہ بحث بھی چھڑ گئی کہ ایک متوازن غذا اور صحت مند طرز زندگی گزارنے والی خاتون بھی اس سے مرض سے محفوظ نہیں ہے۔

کوئی بھی خواتین اس موذی مرض کا شکار ہو سکتی ہے۔ ان کی بالوں کی کٹنگ والی ویڈیو نے ہم سب کو رنجیدہ کیا۔ وہ بال بہت بہادری صبر اور نم آنکھوں کے ساتھ کٹوا رہی تھی اور ان کی والدہ زار و قطار رو رہی تھیں۔

ہم یہ بات محسوس کر رہے ہیں بہت عرصے سے پاکستان اور انڈیا میں جو کیسز سامنے آ رہے ہیں اس میں کینسر میں مبتلا ہونے والی خواتین کی عمر 30 سال یا اس کے آس پاس ہے۔

جبکہ پہلے ماہرین یہ کہا کرتے تھے کہ یہ بیماری 40 کے بعد حملہ آور ہوتی ہے اور 40 کی عمر کے بعد خواتین کو ہر سال اپنی میمو گرافی کروانی چاہیے۔ تاہم بڑی تعداد میں نوجوان خواتین میں یہ کیسز سامنے آنا تشویش ناک ہے اور اس پر بات بھی نہیں ہو رہی۔

اگر اس بیماری کی وجوہات اور وقت میں تبدیلی آ رہی ہے تو اس پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں چھاتی پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور اکثر خواتین اس موضوع پر بات کرتے ہوئے شرماتی ہیں۔ اکثر عورتیں اپنی جسمانی تبدیلی کو چھپاتی ہیں اور مرض بڑھتے بڑھتے پورے جسم میں پھیل جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمارے ملک میں کچھ عمارتوں پر پنک روشنی ڈال کر یہ فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔ ہم خواتین کو بریسٹ کیسنر کے حوالے سے آگاہی دے رہے ہیں لیکن ان علامتی روشنیوں سے کیا سرطان کا پھیلاؤ رک جائے گا؟

اس کا جواب ہے نہیں، کیونکہ اس مرض کے حوالے سے آگاہی موجود نہیں۔ جن کو معلومات ہیں بھی وہ علاج مہنگا ہونے کی وجہ سے کروانے سے قاصر ہیں۔ جب تک ملک اس مرض کی سکرینگ مفت نہیں ہو گی، علاج مہنگا ہو گا، اس بیماری کے ساتھ سٹگما چسپاں ہو گا تو اس کے پھیلاو کو روکنا بھی ممکن نہیں ہو گا۔

یہ بیماری شادی شدہ غیر شادی شدہ کسی بھی عمر کی خاتون کو ہو سکتی ہے اور اس کی تشخیص اور علاج وقت پر نہ ہو تو یہ جان لیوا ہو سکتی ہے۔ پھر بھی اس بیماری پر سکوت چھایا ہوا ہے۔ اگر ہم لوگ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بات بھی کرنے کی کوشش کریں تو لوگ اس حساس موضوع کو جنسی معاملے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ذومعنی باتیں کرنا شروع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین صحافی بھی ان موضوعات پر بات کرنے سے کتراتی ہیں۔

جب بھی خواتین یا مرد اس مرض پر آگاہی کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو بہت سے لوگ ایسی پوسٹ پر بریسٹ کو صرف جنسی اعضا کے طور زیربحث لا کر ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ بہت سے سنجیدہ لوگ بحث چھوڑ جاتے ہیں۔ اس لیے ان موضوعات پر بات کرنا بہت مشکل ہے۔

اگر پنک لائٹس کی جگہ ہم خواتین کے لیے اس موذی مرض کی سکرینگ عام کردیں تو کتنی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کا علاج عام اور سستا کر دیں تو ہم کتنی خواتین کی زندگیاں محفوظ بنا سکتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق بغل یا چھاتی میں کوئی بھی گلٹی سرطانی ہو سکتی ہے، سائز میں تیزی سے تبدیلی، ساخت میں تبدیلی، زخم، مواد کا اخراج، درد، رنگ میں تبدیلی، نیل پڑجانا، سرخ سوجی ہوئی جلد کیسنر کی علامتیں ہو سکتی ہیں۔

زیادہ تر گلٹیاں سرطان کی نہیں ہوتیں لیکن ان علامتوں کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری ہے۔ سب سے پہلے خواتین کا الٹراساؤنڈ ہوتا ہے اس کے بعد میموگرافی اور متاثرہ اعضا سے ٹشو لے کر اس کی بائیوپسی ہوتی ہے۔ اس کے بعد اگر کینسر کی تشخیص ہو جائے تو علاج شروع ہوتا ہے۔

کینسر کی چار سٹیجز ہوتی ہیں۔ پہلی اور دوسری سٹیج پر مریضوں کے صحت یاب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں لیکن تیسری اور چوتھی سٹیج پر علاج بہت پیچیدہ ہو جاتا ہے، اور جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق چھاتی کے کینسر کی وجوہات میں موٹاپا، کم عمری میں پریڈز کا آغاز، تمباکو کا استعمال، شراب نوشی، ریڈی ایشن اور ہارمون تھیراپی بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں موروثی طور پر یعنی ماں سے بیٹی کو چھاتی کا کینسر منتقل ہونے کی شرح بھی خاصی زیادہ ہے۔

کینسر سپیشلسٹ ڈاکٹر شاہ زیب کہتے ہیں ’خواتین اپنی تولیدی صحت پر بات کرنے سے کتراتی ہیں۔ اگر خواتین سیلف چیک کریں اگر ان کو کوئی گلٹی یا زخم محسوس ہو تو اس کو نظرانداز نہ کریں۔ بریسٹ کیسنر کی تشخیص کے لیے ہم الٹرساؤنڈ، میمو گرافی، بائیوپاسی اور ایم آر آئی کرتے ہیں۔ خواتین کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا الٹراساؤنڈ اور میمو گرافی کرنے والا عملہ خواتین پر ہی مشتمل ہوتا ہے اس لیے خواتین کو بنا ججھک اپنے ٹیسٹ کروانا چاہییں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’کینسر کی چار سٹیجز ہوتی ہیں۔ پہلی اور دوسری سٹیج پر مریضوں کے صحت یاب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں لیکن تیسری اور چوتھی سٹیج پر علاج بہت پیچیدہ ہو جاتا ہے، اور جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر شاہ زیب کے مطابق خواتین ’خود کو صحت مند رکھنے کے لیے وزن کو کم کریں اور اگر سخت ورزش نہیں کر سکتے تو روز چہل قدمی کریں۔‘

کیسنر کا علاج کرواتے وقت مریض کے بال جھڑنا شروع ہو جاتے ہیں، بال کسی بھی انسان کی خوبصورتی کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اس وقت انسان کو اپنے اہل و عیال اور دوستوں کی ہمدردی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اس موقعے پر گھر والوں کی شفقت اور ہمدردی بہت ضروری ہے۔ مریضہ کو کبھی طعنے نہیں دینا چاہییں۔

بیماری اللہ کی طرف سے آتی ہے یہ کسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ کبھی بھی مریض کو اس بالوں کا طعنہ نہ دیں نہ ہی اس کی بیماری کو کسی جادو حسد یا گناہ کا نتیجہ قرار دیں۔ نہ ہی یہ بیماری جنسی بےراہ روی سے پھیلتی ہیں۔

یہ ساری باتیں مفروضے ہیں۔ یہ دوسری بیماروں کی طرح ایک بیماری ہے جو کسی بھی خاتون کو ہو سکتی ہے، اس لیے اپنے اردگرد خواتین کو آگاہی دیں تاکہ وہ اس موذی مرض سے بچ سکیں۔

ہمارے ہاں چھاتی کا کینسر جتنی تیزی سے پھیل رہا ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف مریض اور ڈاکٹر اور مریض کی کوششیں کافی نہیں ہیں، بلکہ حکومت، میڈیا، سماجی تنظیموں سمیت پورے معاشرے کو آگے بڑھ کر اس موذی بیماری کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر