امریکی میں میڈیا اداروں کے وکیل نے گوانتانامو بے سے متعلق امریکی فوجی کمیشن سے درخواست کی ہے کہ وہ نائن الیون کے مبینہ منصوبہ ساز خالد شیخ محمد اور دو دیگر افراد کے ساتھ ہونے والے اعترافی معاہدے کو منظر عام پر لائے۔
وکیل نے کہا کہ عوام کا آئینی حق اور اہم ضرورت ہے کہ ’وہ اس ملک میں سب سے زیادہ متنازع، زیر بحث رہنے والے اور اختلافی مقدمات میں سے ایک کی پیروی کرے۔‘
اعترافی معاہدہ اگست میں تینوں ملزموں، امریکی حکومت کے پراسیکیوٹرز، اور گوانتانامو کمیشن کے اعلیٰ عہدے داروں کے درمیان طے پایا لیکن جب یہ عام کیا گیا تو چند دنوں بعد ہی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اسے اچانک منسوخ کر دیا۔
یہ معاہدہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں جن میں تقریباً تین ہزار افراد کی جان گئی اور لمبے عرصے تک جاری رہنے والے بیرون ملک امریکی فوجی حملوں کا سبب بنے، سے متعلق ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری رہنے والی فوجی سماعتوں کی وجہ سے شدید مباحثوں میں ایک کا سبب بن گیا۔
اعترافی معاہدہ خالد شیخ محمد اور دو شریک ملزموں کو القاعدہ کے حملوں میں جرم کا اعتراف کرنے کے بدلے سزائے موت سے بچا لیتا لیکن معاہدے کی خبر سامنے آنے کے بعد اعلیٰ رپبلکن قانون سازوں نے اس کی مذمت کی اور وائٹ ہاؤس نے اس پر خدشات کا اظہار کیا۔
نائن الیون کے حملوں کے متاثرین کے خاندانوں نے اس معاہدے پر ملا جلا ردعمل ظاہر کیا۔ کچھ خاندانوں نے صدمے کا اظہار کیا جبکہ کچھ نے اس کی حمایت کی۔ یہ معاہدہ مقدمے کی کارروائی کے آغاز سے قبل ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی سماعتوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کیا گیا۔ یہ صورت حال حکومت لے لیے قانونی مشکلات کا سبب تھی۔
آسٹن نے فوجی کمیشن کی طرف سے معاہدے کی منظوری منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بڑے فیصلے کا اختیار بطور وزیر دفاع ان پر ہونا چاہیے۔ خالد شیخ محمد اور ان کے ساتھ دو شریک ملزموں نے وزیر دفاع کی طرف معاہدے کی تنسیخ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سے اسے چیلنج کر رکھا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ ’بائیڈن انتظامیہ، قانون سازوں اور دیگر افراد کے اقدامات اس مقدمے میں غیر ضروری بیرونی مداخلت کے مترادف ہیں۔‘
ذرائع ابلاغ کے سات اداروں فاکس نیوز، این بی سی، این پی آر، ایسوسی ایٹڈ پریس، نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، اور یونیویژن نے اعترافی معاہدے کو راز میں رکھنے کو چیلنج کیا ہے۔
جمعے کو ہونے والی سماعت میں فوجی کمیشن کی عارضی نوعیت کو اجاگر کیا گیا۔ یہ کمیشن امریکی رہنماؤں نے 2001 کے حملوں کے بعد مبینہ تشدد پسندوں کے مقدمات چلانے کے لیے بنایا۔
وکلا اور جج نے جمعے کو سول اور فوجی قانونی نظائر پر بحث کی کہ اعترافی معاہدے کی شرائط کو عام کیا جائے یا نہیں۔ اس سماعت نے عوام، بشمول میڈیا اداروں، کو نائن الیون کے ملزموں اور گوانتانامو بے، کیوبا، میں باقی ماندہ چند درجن قیدیوں کے خلاف مقدمات کی معلومات حاصل کرنے میں درپیش رکاوٹوں کو بھی اجاگر کیا۔
سول عدالتوں میں، اعترافی معاہدہ روایتی طور پر عوامی ریکارڈ کا معاملہ ہوتا ہے۔
مقدمے میں دفاع اور استغاثہ کے وکیلوں دونوں نے کمیشن کے جج، ایئر فورس کے کرنل میتھیو میک کال سے کہا کہ وہ میڈیا اداروں کی اعترافی معاہدے کو عام کرنے کی درخواست مسترد کر دیں۔
انہوں نے یہ دلیل دی کہ عوام کو اس معاہدے کی تمام شرائط جاننے کی اجازت دینا، جو حکومت نے ملزمان خالد شیخ محمد، ولید بن عطاش اور مصطفیٰ الہوساوی کے ساتھ کیا، ملتوی کیا جا سکتا ہے۔
پراسیکیوٹرز اور دفاع کے وکیلوں نے تجویز دی کہ لوگوں کو کتنے عرصے انتظار کروایا جا سکتا ہے۔ آسٹن کی جانب سے اعترافی معاہدے کو منسوخ کرنے کے خلاف درخواستوں پر فیصلے کے بعد، یا اس معاملے میں سزا دینے والے فوجی پینل کے اجلاس کے بعد یا ہمیشہ کے لیے۔
سرکردہ پراسیکیوٹر کلے ٹریوٹ نے میک کال کو بتایا کہ پراسیکیوٹرز کو خدشہ ہے کہ ملزموں کی جانب سے جرم قبول کرنے پر رضامندی کے بارے میں معلومات کا ’زیادہ ہونا‘ مستقبل میں سزا دینے والے کسی پینل پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وکیل دفاع والٹر روئز، جو ال ہوساوی کی نمائندگی کر رہے ہیں، نے کہا کہ اعترافی معاہدے کی شرائط عام کرنے کے لیے میڈیا کی درخواستوں کا محرک ’صحافتی لالچ اور طمع‘ ہے۔ روئز نے میڈیا اداروں کی اس بات پر تنقید کی کہ انہوں نے اعترافی معاہدے کو عام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ادارے ’اسی بحث کو بڑھانے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے انہوں نے خود پیدا کیا اور جو اس عمل پر اثرانداز ہوئی۔‘
وکیل ڈیوڈ شولز، جو سات میڈیا اداروں کی نمائندگی کر رہے ہیں، نے استدلال کیا کہ گوانتانامو کی عدالت نے کسی سطح پر یہ ثابت نہیں کیا کہ نائن الیون کے مقدمات کے بارے میں معلومات شیئر کرنے سے کوئی حقیقی مسئلہ پیدا ہو گا۔
انہوں نے دلیل دی کہ عوام کے قانونی حق کو محدود کرنے کی یہ کوئی اچھی وجہ نہیں ہے کہ وہ یہ نہ جان سکیں کہ عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے اور حکومت کیا کر رہی ہے۔
بنیادی طور پر ان کا ماننا ہے کہ عوام کو ان کارروائیوں کے بارے میں معلومات تک رسائی حاصل ہونی چاہیے جب تک کہ اس بات کا واضح ثبوت نہ ہو کہ اس سے سماعتوں کی شفافیت یا حفاظت کسی بھی طرح خطرے میں پڑ جائے گی۔