امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کے ساتھ ہونے والا معاہدہ اعلان کے دو دن بعد ہی منسوخ کر دیا۔ اس معاہدے کے تحت مبنیہ طور پر خالد شیخ محمد کو اعتراف جرم کے بدلے سزائے موت نہیں دی جانی تھی۔
امریکی محکمہ دفاع نے بدھ کو کہا تھا کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر القاعدہ کے حملوں کے منصوبہ ساز خالد شیخ محمد نے اعتراف جرم کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے، تاہم پینٹاگون حکام معاہدے کی مکمل شرائط عوام کے سامنے نہیں لائے تھے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک امریکی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ اس معاہدے میں یہ شامل ہے کہ مجرموں کی جانب سے درخواستوں کے بدلے انہیں سزائے موت نہیں دی جائے گی۔
خالد شیخ محمد اور ان کے دو مبینہ ساتھیوں کے ساتھ بدھ کو ہونے والے معاہدوں سے ایسا لگا کہ ان کے دیرینہ مقدمات حل ہونے جا رہے ہیں، لیکن 11 ستمبر 2001 کے حملوں میں جان سے جان سے جانے والوں کے کچھ رشتہ داروں میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق لائیڈ آسٹن نے اس مقدمے کی نگرانی کرنے والی سوزن سکالیئر کو لکھے گئے ایک میمورنڈم میں کہا: ’میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس ملزم کے ساتھ مقدمے سے قبل معاہدے کرنے کے فیصلے کی اہمیت کے پیش نظر، اس طرح کے فیصلے کی ذمہ داری مجھ پر ہونی چاہیے۔‘
میمو میں کہا گیا کہ ’میں ان تین معاہدوں سے دستبردار ہوتا ہوں، جن پر آپ نے 31 جولائی 2024 کو مذکورہ کیس میں دستخط کیے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نائن الیون کے ملزمان کے خلاف کیسز کئی سالوں سے مقدمے سے پہلے کی قانونی کشمکش میں الجھے ہوئے ہیں جبکہ ملزم کیوبا میں گوانتانامو بے کے فوجی اڈے میں قید ہیں۔
نیو یارک ٹائمز نے رواں ہفتے خبر دی تھی کہ خالد شیخ محمد، ولید بن عطاش اور مصطفیٰ الحوسوی نے مقدمے کا سامنا کرنے کے بجائے عمر قید کی سزا کے بدلے سازش کا اعتراف کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
ان افراد کے مقدمات کے بارے میں زیادہ تر قانونی بحث اس بات پر مرکوز ہے کہ آیا نائن الیون کے بعد امریکی خفیہ ایجنسی (سی آئی اے) کے ہاتھوں منظم تشدد کا سامنا کرنے کے بعد ان کے خلاف منصفانہ مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا نہیں۔
امریکی حکام نے خالد شیخ محمد کو مارچ 2003 میں پاکستان کے شہر راولپنڈی سے گرفتار کیا تھا۔ گوانتاناموبے آنے سے قبل سی آئی اے کی حراست کے دوران خالد شیخ محمد کو 183 بار واٹر بورڈنگ اور دیگر اقسام کے تشدد اور جبری پوچھ گچھ کا نشانہ بنایا گیا۔
تشدد کا استعمال گوانتاناموبے میں فوجی کمیشن میں موجود افراد پر مقدمہ چلانے کی امریکی کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے، جس کی وجہ بدسلوکی سے متعلق شواہد کی عدم قبولیت ہے۔