دیکھیں ہم فی الحال اولمپکس میں سب سے زیادہ تمغے جیتنے والا ملک نہیں کہ جھوم جھوم کہ جشن منائیں یا فی الحال چاند ستاروں پہ جھنڈا بھی نہیں گاڑا کہ پورا سوشل میڈیا سر پہ اٹھا لیں لیکن جو ہم کرسکتے ہیں اور نہایت کامیابی سےکر رہے ہیں کم از کم اُس کی خوشی تو کُھل کر منا سکتے ہیں۔
جی ہاں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان کے لیے بڑی بات ہے۔
پاکستان میں دہشت گرد پھر سے سر اٹھا رہے ہیں، پاکستان قلاش ہونے والا ہے، پاکستان کا 75 فیصد حصہ سیلاب کی زد میں آگیا، پاکستان کو بڑی مشکل سے قرضہ مل گیا۔
پاکستان ایک بار پھر نیلی پیلی فہرست میں آگیا، پاکستان کے دارالحکومت میں مظاہرین نے آگ لگادی یا پاکستان میں کام کرنے والے غیر ملکی انجینیئرز حملے میں جان سے گئے۔
جب ایسی شہ سرخیاں آئے روز عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہوں ایسے میں درجنوں ممالک کے بڑوں کا پاکستان آنا ہمارے لیے کسی بڑے دن سے کم نہیں۔
یہ بات شاطروں، سیانوں، سیاستدانوں اور پڑھے لکھوں کو سمجھ آتی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے پاکستان نے کیا کچھ پایا لیکن عام بندے کی سمجھ بس اتنا ہی کچھ آسکتا ہے کہ پاکستان میں ایک بین الاقوامی اجلاس ہو رہا ہے۔
کیا پاکستان کے شانے پہ تھپکی دینے کے لیے یہ وجہ کافی نہیں کہ ہم نے چین، روس، بیلاروس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان کے وزرائے اعظم کو ویلکم کیا، جو تقریب ہم نے سجائی اس میں ایران کے نائب صدر، انڈیا کے وزیر خارجہ، منگولیا کے وزیر اعظم اور ترکمانستان کے وزیر خارجہ شامل ہوئے۔
سوچیں کہ مال دار رشتے دار کسی غریب رشتے دار کی شادی میں اس لیے آنے سے انکار کر دیں کہ ان کا محلہ بڑا خطرناک ہے یا تقریب کے انتظامات ناکافی ہیں، کیسی ناک کاٹ قسم کی صورت حال ہوجاتی ہے۔
ایسا کچھ ہمارے ملک کے ساتھ بھی ہوا کرتا تھا۔ یہاں کرکٹ ٹیمیں سکیورٹی خدشات کے باعث آنے سے انکاری ہوجاتی تھیں، گورے وی لاگر وڈیوز بنا کر کہتے تھے کہ وہ بحفاظت پاکستان کے سفر سے واپس آ گئے۔
پھر وقت نے کروٹ لی اور پاکستان میں سکیورٹی کے حالات جیسے تیسے کرکے معمول پہ آنے لگے۔ اس وقت پاکستان میں امن و امان 100 فیصد معمول پر نہیں لیکن سکیورٹی خدشات کی ایسی صورت حال کا سامنا لگ بھگ ہر ملک کو ہے اسی لیے پاکستان اپنی موجودہ سکیورٹی کے ساتھ سب کو قابل قبول ہو گیا۔
عام شخص سمجھتا ہے کہ بھلا اس کی زندگی میں شنگھائی تعاون تنظیم کا کیا کام، حالانکہ ایسی ڈپلومیسی میں سارا فائدہ ہی عام بندے کا ہے۔
جس ملک کا وزیراعظم پاکستان آیا اب اس ملک کا عام فرد پاکستان آنے سے نہیں کترائے گا۔ جب آپ کا ملک دوسرے ملکوں سے ملتا ہے تو ویزا پالیسی نرم ہوتی ہے، بلکہ بعض مواقع پہ تو ویزا فری سفر ہوجاتا ہے۔
ہمارے مقامی بینکوں کی بیرون ملک برانچ کھولنے کی سبیل ہوتی ہے۔ ہمارے چھوٹے کاروبار بھی دوسرے ممالک میں اپنی مارکیٹ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ہمارے طالب علم ان ممالک میں جاکر پڑھ سکتے ہیں، اپنا مستقبل بنا سکتے ہیں۔
عام شخص اتنا فائدہ تو سمجھ ہی سکتا ہے لیکن ہمارا معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ وہ وقت جب اسلام آباد کو دنیا کے طاقتور ترین افراد کی آمد کے لیے سجایا جا رہا تھا ہمارے جوان سوشل میڈیا پہ ٹاپ ٹرینڈ چلا کر حکومت پہ لعنت بھیج رہے تھے کہ لاہور میں ایک لڑکی کا ’ریپ‘ ہوگیا اور حکومت برقی قمقمے لگا رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی یہ تذبذب بھی جاری رہا کہ متاثرہ لڑکی کون ہے، عجب کشمکش یہ کہ جنسی تشدد ہوا بھی ہے کہ نہیں یہ مصدقہ نہیں، ستم یہ کہ متاثرہ لڑکی کا کوئی اتا پتا نہیں، بالائے ستم یہ کہ ایک خاندان سامنے آیا اور آکر کہتا ہے ان کی لڑکی گھر میں گر گئی تھی کم از کم اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی۔
لیکن مدعی سست گواہ چست، جسٹس فار گمنام وکٹم، ٹرینڈز چلانے والے ٹرینڈز پہ ٹرینڈز چلا رہے ہیں۔
پاکستان میں بین الاقوامی کانفرنس کرانا نہ کسی آرمی والے کی جیت ہے نہ شیروانی والے کی محنت کا نتیجہ، یہ پاکستان کی سفارتی حیثیت و اہمیت کا معاملہ ہے۔
کون کہتا ہے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس پہ عام بندہ لُڈی ڈالے لیکن پاکستان کی عالمی منظرنامے پہ واپسی کو بہرحال بہتر طریقے سے منایا جا سکتا تھا۔
جنہیں سوشل میڈیا پوسٹ لکھنی اور سوشل میڈیا ٹرینڈز چلانے آتے ہیں انہیں اتنی سمجھ بوجھ تو ہوگی کہ اقوام عالم میں ایک ملک کی عزت کیا معنی رکھتی ہے۔
بس ان ہی جوانو سے التجا ہے کہ کبھی تو اپنی ننھی مُنی سیاسی ضد کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کا ساتھ دے دیا کرو۔
جوانو! کبھی تو بغیر کسی ایجنڈے کے صرف پاکستان کے لیے ٹرینڈ چلا لیا کرو۔ باقی پراپیگنڈے کے 364 دن کم ہیں کیا؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔