اب ہاتھ آپ کی گردنوں تک آ پہنچا ہے

اگر الزام ابہام، غلط بیانی، جھوٹ اور پروپیگنڈے پر مبنی ہو تو انصاف یہ ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والے کی پکڑ ہو۔

17 اگست 2023 کو جڑانوالہ میں مسیحی کمیونٹی کے ان مکان دیکھے جا سکتے ہیں، جنہیں 16 اگست کو مبینہ توہین مذہب کے ردعمل میں توڑ پھوڑ کے بعد جلا دیا گیا تھا (اے ایف پی)

زیادہ نہیں یہی کوئی گذشتہ 15 یا 20 سال کا عرصہ ہے جس میں پاکستان کی سیاسی تاریخ تلپٹ ہوئی، ایک سابق وزیراعظم کو جان سے مار دیا گیا، ایک وزیر اعظم کو اقتدار سے نکال دیا گیا، ایک فوجی سربراہ کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا اور ایک وزیراعظم کو راتوں رات کرسی سے اتار دیا گیا۔

جو معتوب تھے وہ نوازے گئے، جو لاڈلے تھے وہ محفل سے رسوا کر کے نکالے گئے۔

مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب اگر قوم کی سیاسی تاریخ میں کبھی کبھار ہو جاتا تب بھی کام چل جاتا لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ سب ایسے ہو رہا ہے جیسے تھیئٹر میں کامیاب ڈراما برسوں سے سٹیج کیا جا رہا ہو جس کے شائقین، اداکاروں اور ہدایت کاروں سب کو معلوم ہے کہ اب اگلے سین میں کیا ہونے والا ہے۔

مذہب کا کارڈ اس انتہائی بورنگ لیکن سنگین ڈرامے میں ایکشن سین سے کچھ پہلے آتا ہے۔

جہاں کھیل کے ایک کردار کی سکرپٹ میں کوئی گنجائش نہیں بچتی تو اسے منظر سے ہٹانے  کے لیے مذہب کی گستاخی کا ایسا الزام لگا دیا جاتا ہے جس کا دفاع  نہ ڈراما لکھنے والے نے سوچا ہوتا ہے نہ کردار کے اپنے بس میں ہوتا ہے۔

ہم سب نے یہ سین پہلے بھی دیکھے اب پھر دیکھ رہے ہیں۔

اس بار نشانے پہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے منصف اعلیٰ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ہیں۔

الزام کیا ہے، چیف جسٹس کا کون سا فیصلہ ان الزامات کی بنیاد بنا، الزام درست بھی ہے کہ نہیں یہ تفصیل متجسس ذہنوں کو تھوڑی سی دقت کے ساتھ آن لائن  مل جائے گی۔

اب چاہے نتیجہ یہ ہی کیوں نہ نکلے کہ الزام غلط تھا لیکن فتنے کا بیج تو بو دیا گیا اور شر پھیلانے کو یہی بیج کافی ہوتا ہے۔

پھر لاکھ تردیدیں جاری ہو جائیں لوگ یہی کہتے ہیں کہ کچھ تو کیا ہوگا ورنہ ایسے کیسے الزام لگ سکتا ہے۔

 ہر کریمنل معاملے میں مرکزی حیثیت کے الزام کا میرٹ طے کرنا ہوتا ہے، الزام کا میرٹ طے ہو تو پھر مناسب عدالتی پلیٹ فارم کون سا ہو یہ میرٹ طے کیا جاتا ہے۔

توہین مذہب کے معاملے میں الزام کا میرٹ کئی درجوں سے کئی واسطوں سے گزر کر طے کیا جاتا ہے جس میں پولیس، تفتیشی افسران اور وکلا سب شامل ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دلائل و شواہد کی بنیاد پر الزام کا میرٹ درست ہے یا نہیں یہ بالآخر منصف یا قاضی طے کرتا ہے لیکن یہ سب آئیڈیل صورتوں میں ہوتا ہے۔

عمومی طور پہ توہین کے مقدمات میں قانون کا راستہ شاذ و نادر ہی اپنایا جاتا ہے۔ اس بار الزام کا داغ خود منصف اعلیٰ کے دامن پہ لگا ہے، مصیبت یہ ہے کہ وہ اب کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟

نظام انصاف کی رو سے الزام درست ہو تو ملزم کے خلاف کارروائی آگے بڑھتی ہے لیکن اگر الزام ابہام، غلط بیانی، جھوٹ اور پروپیگنڈے پہ مبنی ہو تو انصاف یہ ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والے کی پکڑ ہو۔

لیکن پاکستان میں یہ ذرا مشکل امر ہے کہ توہین مذہب کے جھوٹے الزام لگانے والوں کو سزا دی جائے۔ 

عدالتی وقت ضائع کرنے پہ جرمانے ہو جایا کرتے ہیں لیکن توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر کسی بےقصور کی زندگی کے کئی سال ضائع کرنے والے افراد بمشکل ہی کٹہرے میں لائے جاتے ہیں۔

مقتدر افراد اگر ناگہانی کے جھپٹے میں آجائیں تو قانون کے پاس الزام کا داغ  دھونے کے سو راستے  دستیاب ہو سکتے ہیں۔ الزام کو کاونٹر پروپیگنڈے کی مدد سے شکست دی جاسکتی ہے، علما و مشائخ کی مدد سے ایک جوابی بیانیہ دیا جاسکتا ہے کہ معاملہ ایسا نہیں ویسا ہے۔

تصیح، توجیہہ اور  تردید کے آپشنز بھی کھلے ہیں لیکن کبھی سوچا کہ وہ تنہا شخص جسے محلے کے کونسلر تک پہنچنے کے لیے بھی سفارش کی ضرورت پڑتی ہو اگر اس سفاک ٹولے کا نشانہ بن جائے تو اس کا کیا حشر ہوتا ہے؟

یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ عام آدمی کے ساتھ کیا ہوتا ہے، درجنوں ویڈیوز سوشل میڈیا پہ موجود ہیں۔ توہین کا الزام لگے تو عام آدمی سڑکوں پہ گھسیٹا جاتا ہے، چھت سے گرا دیا جاتا ہے، دہکتی بھٹی میں حاملہ بیوی سمیت جھونک دیا جاتا ہے۔

یہ عام آدمی ڈاکٹر ہو تو اس کا اپنا مریض اسے مار دیتا ہے، یہ گورنر ہو تو اس کا محافظ جان لے لیتا ہے، یہ استاد ہو تو اس کے اپنے شاگرد اسے قتل کر دیتے ہیں۔ یاد رہے یہ سب تب ہوا ہے جہاں ابھی صرف الزام تھا، نہ مدعی نہ شہادت اور نہ کوئی عدالتی فیصلہ۔

یہ انتہائی  اہم معاملہ ہے جس پہ ملک کے فیصلہ ساز سر جوڑ کر بیٹھنے میں جتنی دیر لگائیں گے ہم بحیثیت قوم اتنا ہی نقصان اٹھائیں گے۔

ملک میں باشعور طبقہ کم نہیں اور ایسے علما کرام کی بھی کمی نہیں جن کے علم کی برکت سے عوام الناس بڑی تعداد میں فیض یاب ہوتے ہیں۔

یہی وقت ہے کہ اس سنگین معاملے پہ سنجیدگی دکھائی جائے ناکہ اسے مخالفین کو دبوچنے کا ایک ایسا آلہ بنا دیا جائے جس کے شکنجے میں معمولی حرکت کی بھی گنجائش نہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر