اسرائیل ایسے کیسے من مانیاں کرلیتا ہے؟

ان امدادی تنظیمیں کے ہاتھ جوڑ جوڑ کر دہائیاں دینے کا انجام یہ نظر آتا ہے کہ اسرائیل جب دل کرے امدادی آپریشنز پہ بھی حملہ کر دیتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی جیسے اسرائیل کے سامنے بے بس و لاچار نظر آتی ہیں۔

13 جولائی 2024 کی اس تصویر میں خان یونس میں المواصی پناہ گزینوں کے لیے کیمپ پر اسرائیل کے حملے کے بعد بے گھر فلسطینی اپنا بچا کچا سامان ملبے سے اٹھاتے ہوئے (بشر طالب/ اے ایف پی)

امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے بیان جاری ہوتا ہے کہ اسرائیل ذرا ہاتھ ’ہولا‘ (ہلکا) رکھے، لیکن اگلے دن اسرائیل نہتے شہریوں پہ بم گرا دیتا ہے۔

شام میں امریکی وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا بیان آتا ہے کہ امریکہ معصوم افراد کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کے حق میں نہیں، صبح تک اسرائیل غزہ کا پورا محلہ ملبے کا ڈھیر بناچکا ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہوتی ہے کہ اسرائیل بچوں کو تو بخش دے، اگلے دن اسرائیل سکول کے بچوں کو نشانہ بنا کر جواب دیتا ہے۔

عالمی عدالت انصاف اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہراتی ہے اسرائیل اسی شام اپنی جیلوں میں قید بے گناہ فلسطینیوں کو پوائنٹ بلینک مارنے کی ویڈیوز جاری کر دیتا ہے۔

وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل جس کی انسانی حقوق کی رپورٹ میں کسی ملک کا نام آجائے تو ہر طرف سے تھوتھو ہوتی تھی، وہ بیان جاری کرتی ہے۔

ریڈ کراس والے بھی اکثر متنبہ کرتے رہتے ہیں کہ اسرائیل ہمیں تو ہمارا کام کرنے دے، ڈاکٹرز سانس فرنٹیئرز والے بھی اپنی سے کہہ کہہ کر اسرائیل کو انسانیت یاد دلاتے رہتے ہیں۔

ان امدادی تنظیمیں کے ہاتھ جوڑ جوڑ کر دہائیاں دینے کا انجام یہ نظر آتا ہے کہ اسرائیل جب دل کرے امدادی آپریشنز پہ بھی حملہ کر دیتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی جیسے اسرائیل کے سامنے بے بس و لاچار نظر آتی ہیں۔

آخر اسرائیل ایسے کیسے من مانیاں کرلیتا ہے، کیا امریکہ کیا یورپ اور کیا انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، سب اسرائیل کی ضد کے آگے گھٹنے کیوں ٹیک دیتے ہیں۔

ایسا بھی کیا خوف؟؟ یہ سوال اپنے آپ ہی ایک جواب ہیں۔ اسرائیل کا بے خوف اور انجام سے بے پرواہ ہونا صرف کسی سُپر پاور کی یقین دہانی پہ منحصر نہیں۔

ایسا نہیں کہ امریکہ نے گرین سگنل دے دیا کہ جتنا دل کرے مارو اور اسرائیل مسلمانوں کی نسل کشی پہ نکل گیا۔

اسرائیل کی من مانیوں کے پیچھے زایونسٹ یعنی صہیونی لابی کی برسوں کی محنت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اکھنڈ اسرائیل کا خواب دیکھنے والوں نے اِدھر اُدھر سے اُدھار لے کر طاقت کا نشہ نہیں کیا۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے نصف صدی سے بھی پہلے جب یہودیوں کی بڑی تعداد لُٹے پِٹے گھرانے لے کر امریکہ پہنچی تھی۔

اس اقلیتی گروپ نے سوائے بزنس، سائنس اور ٹیکنالوجی کے کسی جانب نہیں دیکھا۔

پھر تاریخ نے دیکھا کہ کیسے حکومت برطانیہ دنیا بھر میں اپنی کالونیاں ختم کرکے نئی ریاستیں بنا گئی۔

یہودیوں کے لیے اسرائیل کا قیام بھی انہی دنوں کا تحفہ ہے جسے آج پوری دنیا بھگت رہی ہے۔

اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک اس ملک کو زایونسٹ لابی نے کسی عظیم الشان پراجیکٹ کے طور پہ لیا ہے۔

اسرائیل کی دفاعی پالیسی، معاشی پالیسی اور خارجہ پالیسی تسلسل کے ساتھ اس گرینڈ پراجیکٹ کا حصہ نظر آتی ہیں۔

پراجیکٹ اسرائیل کو طاقتور بنانے میں صرف اسرائیلی فوجی طاقت کارفرما نہیں، اسرائیل کی کمر مضبوط کرنے کو اس کے پیچھے ہزاروں کی تعداد میں وہ چھوٹے بڑے بزنس موجود ہیں جو دنیا بھر کے معاشی نظام کی رگ و پے میں اترے ہیں۔

یہ لابی آپ کو امریکی، برطانوی اور یورپی سٹاک مارکیٹ میں ٹاپ پہ نظر آئے گی۔

دنیا کے بڑے بڑے بینر والے میگزین، اخبارات، میڈیا ہاوسز دیکھ لیں ان کے مالکان اسی زایونسٹ لابی کے کرتا دھرتا نظر آئیں گے۔

جن کمپنیوں کے مالک یہ نہیں ہوں گے وہاں ان کے تجارتی شیئرز ہوں گے۔ ہالی وڈ کے بڑے پروڈکشن ہاوسز میں انہی کا سکہ چلتا نظر آتا ہے۔ جب کمپنی ہی اسرائیلی لابی کی ہو تو پھر یہ پروڈکشن ہاؤس اور بین الاقوامی نیوز چینل اسرائیل کا دفاع نہ کریں تو کیا کریں؟

ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ نہایت گیان دھیان سے جس پراجیکٹ اسرائیل کو سوچا گیا ہو تو اس میں ٹیکنالوجی کو نظر انداز کردیا گیا ہو۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی کمپنیاں اس وقت انڈیا، اسرائیل، چین اور امریکہ کی آئی ٹی انڈسٹری کی مرہونِ منت ہیں۔

اس پہ ستم بالائے ستم یہ کہ جاسوسی کے جدید آلات، جاسوسی کے خود کار نظام اور جاسوسی کے سافٹ وئیرز میں اسرائیلی ٹیکنالوجی اس وقت ٹاپ پہ ہے جس پہ خود امریکہ بھی انحصار کرتا ہے۔

جاسوسی کے جدید نیٹ ورک میں رہی سہی کسر لبنان کی حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کے حالیہ پیجر حملوں نے پوری کر دی ہے۔

 چاکلیٹ، کافی، سنگترہ یا کپڑے دھونے والا پاوڈر، سیٹلائیٹ ،انفارمیشن یا دفاعی ٹیکنالوجی،جاسوسی کے آلات، زرعی ایجادات، بینکنگ سیکٹر، فنانسنگ سیکٹر، سٹاک مارکیٹ، نیوز چینلز، میوزک، یا مشہور زمانہ ایکشن فلمیں۔ جب روزمرہ زندگی کا کوئی شعبہ صہیونی لابی کے اثر سے خالی نہیں پھر اسرائیل من مانی کیوں نہ کرے۔

اور کیوں نہ عالمی میڈیا اسرائیل کا دفاع کرے، کیوں نہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اسرائیل کے نام پہ بغلیں جھانکیں، کیوں نہ عالمی عدالت انصاف منمنا کر رہ جائے، کیوں نہ مغربی طاقتیں اسرائیل کو انسانیت کی یاد دہانی تو کرواتی نظر آئیں مگر اس سے زیادہ نہ کرپائیں، کیوں نا بائیکاٹ اسرائیل کے نعرے پہ پابندی لگائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر