ایرانی سرحد پر فائرنگ سے ’شہریوں کی اموات‘ پر افغان حکومت کا تحقیقات کا آغاز

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ افغانستان کے نائب وزیر داخلہ محمد ابراہیم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی گئی ہے جو معاملے کی جلد تحقیقات کرکے رپورٹ وزیراعظم ہاؤس میں جمع کروائے گی۔

12 ستمبر 2024 کی اس تصویر میں افغان صوبے ہرات کے ضلع اسلام قلعہ میں افغانستان ایران سرحد پر لوگوں کی آمدورفت جاری ہے (اے ایف پی)

پاکستان اور ایران کی سرحد پر 14 اور 15 اکتوبر کے دوران افغان شہریوں کی مبینہ طور پر ایرانی فورسز کی  فائرنگ سے اموات کی رپورٹس پر افغانستان کی عبوری حکومت نے اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی۔

سماجی رابطوں کے ویب سائٹ فیس بک اور ایکس سمیت مختلف میڈیا اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان کی سرحد سے منسلک ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے شہر سراوان کے علاقے کلاگن میں رواں ہفتے مبینہ طور افغان شہریوں پر فائرنگ کی گئی، جس میں متعدد افراد کی اموات اور زخمی ہونے کے اطلاعات ہیں۔

بعض رپورٹس میں بتایا گیا کہ یہ افغان شہری غیر قانونی طریقے سے ایران کی سرحد پار کر رہے تھے، جن پر مبینہ طور پر ایرانی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔

ابھی تک اس واقعے کی باقاعدہ طور پر ایران یا افغان حکومت کی جانب سے تصدیق نہیں کی گئی، تاہم افغانستان کی عبوری حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کردی ہے۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بھیجے گئے پیغام میں بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے افغانستان کے نائب وزیر داخلہ محمد ابراہیم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان کے مطابق کمیٹی میں وزارت دفاع، وزارت خارجہ اور انٹیلی جنس ادارے کے نمائندے بھی شامل ہیں، جسے معاملے کی جلد تحقیقات کرکے رپورٹ وزیراعظم ہاؤس میں جمع کروانے کی ہدایت دی گئی ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق: ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جلد ہی اس معاملے پر عوام کے سامنے وضاحت پیش کریں۔‘

بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق سرحد پر فائرنگ سے زخمی ہونے والے کچھ افراد کو سرحد پار پاکستانی ضلع واشک کی سب ڈویژن ماشکیل بھی لایا گیا، تاہم ضلع واشک کے ڈپٹی کمشنر نعیم عمران نے ان رپورٹس کی تردید کردی ہے۔

ڈپٹی کمشنر نعیم عمران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماشکیل میں اس مبینہ واقعے میں جان سے جانے والے یا زخمی شخص کو نہیں لایا گیا۔

ان کا کہنا تھا: ’ایک بھی لاش یا زخمی یہاں نہیں لایا گیا اور نہ ہی ایسا کوئی واقعہ رپورٹ ہوا ہے کیونکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ واقعہ ایران کی حدود میں کلاگن کے علاقے میں ہوا ہے۔‘

 

ضلع واشک سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی اسماعیل عاصم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس علاقے کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ یہاں واقعہ ہوا ہے، اسی راستے سے غیر قانونی طور پر تارکین وطن ایران داخل ہوتے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’سرحد پر لوگ ایجنٹس کے ذریعے بھجوائے جاتے ہیں، جہاں ان کی رہائش کے لیے جگہ موجود ہوتی ہے۔

’اس کے بعد افغانستان اور ایران میں موجود ایجنٹس انہیں ایران اور اس کے بعد ترکی بھجواتے ہیں۔‘

اسماعیل کے مطابق سرحد پر کچھ دن گزارنے کے بعد انہیں سراوان کے علاقے کلاگن منتقل کیا جاتا ہے، جہاں سے سرحد کو پانچ سے 10 کلومیٹر پیدل پار کرنا ہوتا ہے اور اگر راستہ خراب ہو یا کوئی ناکہ بندی ہو تو رات کی تاریکی میں بھی سرحد پار کی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے اسسٹنس مشن (یوناما) نے بھی افغان شہریوں کی ایرانی سرحد پر مبینہ اموات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

یو این مشن نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ مشن کو 14 اور 15 اکتوبر کے دوران سامنے آنے والی پریشان کن رپورٹس پر تشویش ہے، جس میں ایران کے سرحدی علاقے کلاگن میں افغان شہریوں کی مبینہ اموات کا ذکر ہے۔

بیان کے مطابق: ’ہم اس مبینہ واقعے کی آزادانہ تحقیق کا مطالبہ کرتے ہیں اور تمام پارٹیوں کو یہ یاددہانی کرواتے ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت پناہ گزینوں، تارکین وطن اور پناہ لینے والوں کے حقوق محفوظ ہیں۔‘

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق ایران میں 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق 26 لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین آباد ہیں اور افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد تقریباً 10 لاکھ افغان پناہ گزین ایران منتقل ہوئے تھے۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق افغان پناہ گزینوں کی 90 فیصد سے زائد تعداد پاکستان اور ایران میں آباد ہے، جو دنیا میں کسی بھی ملک میں پناہ گزینوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

سراوان میں واقع کراسنگ پاکستان، ایران اور افغانستان کی سرحدوں کے ساتھ ملتی ہے اور یہاں اس سے قبل بھی فائرنگ کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔

رواں سال جنوری میں سراوان میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہر کی ایک دکان میں کام کرنے والے نو پاکستانی مزدوروں کو قتل کر دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا