اقوام متحدہ کے ادارہ برائے نقل مکانی (آئی او ایم) نے منگل کو کہا ہے کہ اپریل 2025 کے آغاز سے اب تک تقریباً 60 ہزار افغان شہری پاکستان سے واپس افغانستان جا چکے ہیں۔
یہ اعداد و شمار پاکستان کے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کے بعد سامنے آئے ہیں۔
آئی او ایم نے آج اپنے ایک بیان میں کہا: ’یکم اپریل سے 13 اپریل، 2025 کے درمیان افغان پناہ گزینوں کی جبری وطن واپسی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور تقریباً 60 ہزار افراد طورخم اور سپن بولدک کی سرحدی گزرگاہوں سے افغانستان میں داخل ہوئے۔‘
تاہم وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے انڈپینڈںٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ دوسرا مرحلہ جو فروری 2025 سے شروع ہوا، میں اب تک 70 ہزار افغان باشندوں کو پاکستان سے واپس بھیجا چکا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستان نے اکتوبر 2023 میں اعلان کیا تھا کہ وہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں، خصوصاً افغان باشندوں کو ملک سے بے دخل کرے گا۔
اس اعلان کے بعد سے اب تک لاکھوں افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات سکیورٹی خدشات اور داخلی نظم و نسق بہتر بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان فیصلوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے پہلے ہی جبری وطن واپسی اور غیر انسانی حالات پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں جن کا سامنا افغان پناہ گزینوں کو سرحد پار کرتے وقت یا افغانستان واپسی کے بعد کرنا پڑتا ہے۔
آئی او ایم اور دیگر امدادی ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ بڑی تعداد میں افغان شہریوں کی واپسی افغانستان میں ایک نئے انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک پہلے ہی معاشی بدحالی، خشک سالی، اور محدود وسائل کا شکار ہے۔
آئی او ایم کا کہنا ہے کہ ادارہ واپس آنے والے افراد کو ہنگامی امداد، رہائش، خوراک، اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم اس کے وسائل محدود ہیں۔
افغان صحافی گرفتار
اس دوران پاکستانی حکام نے افغان خاتون صحافی فتشتہ سدید کو ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لے کر لاک اپ منتقل کر دیا ہے جہاں سے انہیں افغانستان واپس بھیجے جانے کا امکان ہے۔
فتشتہ سدید، جو طالبان حکومت کی ہٹ لسٹ پر ہیں، کی جبری واپسی ان کی جان کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کے مطابق پاکستان میں 200 سے زائد افغان صحافیوں کو ملک بدر کیے جانے کا خطرہ لاحق ہے، جو طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے ۔
آر ایس ایف نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان صحافیوں کو واپس نہ بھیجے کیونکہ ان کی واپسی سے ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
تنظیم نے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے ۔
فتشتہ سدید کی گرفتاری اور ممکنہ ملک بدری پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فتشتہ سدید اور دیگر افغان صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنائے اور انہیں ایسے ملک میں واپس نہ بھیجے جہاں ان کی جان کو خطرہ ہو۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔
تاہم انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے ان افراد کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں جو اپنے ملک میں ظلم و ستم سے بچنے کے لیے پاکستان آئے تھے۔