چھوٹے ناموں کے بھی بڑے درشن ہوا کرتے ہیں

ملتان ٹیسٹ میں کامران غلام، ساجد خان اور نعمان علی ٹیم جیت کے مرکزی کردار ثابت ہوئے، جب کہ سلیکشن کمیٹی کا کردار بھی نہیں بھولا جا سکتا۔

17 اکتوبر کو ملتان میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں مہمان ٹیم کی دوسری وکٹ گرنے کے بعد پاکستانی کھلاڑی نعمان علی کو مبارک باد دے رہے ہیں (پی سی بی)

ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ نہ جیتنے کا جمود بالآخر ٹوٹ گیا۔ گیارہ ٹیسٹ میچوں کے صبر آزما انتظار کے بعد پاکستان نے ہوم گراؤنڈ پر پہلی کامیابی حاصل کرلی اور انگلینڈ کو 152 رنز کے واضح فرق سےشکست دے دی۔

کپتان شان مسعود اور ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی کے مرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ لوٹ آئی۔ خصوصاً شان مسعود جو کپتانی ملنے کے بعد سے لگاتار چھ ٹیسٹ میچز ہارچکے تھے۔

انگلینڈ کے خلاف ملتان ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم کی اس جیت کو ہمیشہ یاد رکھنے کی کئی وجوہات موجود رہیں گی۔

ایک ایسی جیت جس نے پاکستانی ٹیم اور پاکستان کی کرکٹ پر کافی عرصے سے طاری مایوسی سے نجات دلائی جس کا ظاہر ہے پہلا کریڈٹ کپتان اور پوری ٹیم کے سرجاتا ہے، جنہوں نے ساڑھے تین دن کے کھیل میں انگلینڈ کی اسی ٹیم کو مکمل اپنے قابو میں کر لیا، جو چند روز قبل اسی میدان میں ان کے حوصلے پست کر چکی تھی۔

لیکن اس جیت میں اس نئی سلیکشن کمیٹی کو قطعاً نہیں بھولنا چاہیے، جس کے جرات مندانہ فیصلوں نے پاکستانی ٹیم کو اس شاندار جیت سے ہمکنار کرنے کا موقع فراہم کیا اور یہ بات ثابت کر دی کہ جب بڑے ناموں کے درشن چھوٹے پڑجائیں تو پھر بڑے درشن کے لیے چھوٹے نام کامیابی کی ضمانت بن جاتے ہیں۔ ضرورت صرف ان پر اعتماد کرنے کی ہوتی ہے اور وہ ہمیں اس ملتان ٹیسٹ میں نظر آیا ہے۔ جس طرح کامران غلام، ساجد خان اور نعمان علی ٹیم میں لائے گئے اور یہ تینوں اس جیت کے مرکزی کردار ثابت ہوئے۔

پہلے ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم کی شکست کے بعد سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ سکائی سپورٹس پر بیٹھے ناصر حسین اور مائیک ایتھرٹن اپنی ٹیم کی جیت سے زیادہ پاکستان کی کرکٹ کی مایوس کن صورتحال پر نہ صرف کھل کر بات کر رہے تھے بلکہ ان کی اس گفتگو میں پاکستان کی کرکٹ پر طنز کے بھرپور وار بھی واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے تھے۔ لیکن اب یقیناً یہ دونوں ماہرین اسی پاکستانی سسٹم سے نکل کر آنے والے کھلاڑیوں کی غیرمعمولی صلاحیتوں کے معترف ہو چکے ہوں گے۔

پہلے ٹیسٹ کے بعد سلیکشن کمیٹی میں طوفانی انداز میں ردو بدل ہوا تھا اور اس میں عاقب جاوید، علیم ڈار، اظہرعلی اور حسن چیمہ کا اضافہ ہوا تو ہر طرف شور مچا تھا کہ آخر سلیکشن کمیٹی میں لوگوں کا آنا جانا کب تک چلتا رہے گا۔ اس اعتراض کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ پچھلے تین برسوں کے دوران 26 کے لگ بھگ سلیکٹرز سلیکشن کمیٹی میں آ کر جا چکے تھے۔ لیکن نتائج مایوس کن رہے تھے۔

اس نئی سلیکشن کمیٹی نے آتے ہی ایک دو بڑے فیصلے کر ڈالے، جن میں سپینرز کا جال بچھا کر انگلینڈ کو قابو کرنے کا پلان بھی شامل تھا، جس کی طرف ایک پوڈکاسٹ میں عاقب جاوید نے اشارہ کر دیا تھا کہ اگر انگلینڈ کو ہرانا ہے تو ہمیں سپن وکٹ کے ذریعے اسے قابو کرنا ہو گا اور جب وہ سلیکٹر بنے تو انہوں نے اپنی اس سوچ کو عملی شکل دے ڈالی۔

سابق کپتان راشد لطیف کافی عرصے سے کہتے آئے تھے کہ پاکستان کو ہوم سیریز میں تین سپنرز کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیےاور انہوں نے دوسرے ٹیسٹ سے قبل ہی یہ پیش گوئی کردی تھی کہ پاکستانی ٹیم یہ ٹیسٹ جیتے گی۔

سپینرز کے ذریعے بازی اپنے نام کرنے پر یاد آیا کہ بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز ہارنے کے بعد پاکستانی ٹیم کے اسسٹنٹ کوچ اظہرمحمود نے یہ کہا تھا کہ ہم سپن وکٹیں تیار نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے پاس کوالٹی سپنرز نہیں ہیں جو ایک ٹیسٹ میں 20 وکٹیں لے کر میچ جتوا سکیں۔

ملتان ٹیسٹ میں ساجد خان اور نعمان علی کی شاندار پرفارمنس پر اب اظہرمحمود کیا کہیں گے؟

جہاں تک کامران غلام، نعمان علی اور ساجد خان کا تعلق ہے تو ان تینوں میں ایک بات قدر مشترک ہے اور وہ ہے ان کا مثالی صبر۔

29 سالہ کامران غلام پچھلے 11 سال سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے ہیں اور جب انہیں ٹیسٹ کیپ ملی تو وہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں 17 سنچریاں بنا چکے تھے۔

2021 کے سیزن میں انہوں نے پانچ سنچریوں اور پانچ نصف سنچریوں کی مدد سے 1249 رنز بنا کر پاکستان کے ڈومیسٹک فرسٹ کلاس سیزن میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا 36 سال پرانا ریکارڈ توڑ دیا تھا، جس کی بنا پر وہ جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز کے لیے پاکستانی سکواڈ میں شامل کیے گئے تھے لیکن انہیں کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا۔

گذشتہ سیزن میں بھی انہوں نے چھ سنچریوں اور دو نصف سنچریوں کی مدد سے 1025 رنز بنائے تھے۔

گذشتہ سال وہ نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے انٹرنیشنل محض کنکشن ریپلیسمنٹ کے طور پر کھیلے تھے لیکن اب جب انہیں مکمل طور پر ٹیسٹ میں کھیلنے کا موقع ملا تو انہوں نے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ان خوش قسمت کھلاڑیوں میں شامل ہو گئے، جنہوں نے اپنے اولین ٹیسٹ میں سنچری سکور کی۔

جہاں تک نعمان علی کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنے کیریئر میں صبرآزما مراحل سے گزر چکے ہیں۔ ان کی عمر اب 38 سال ہو چکی ہے۔ تین سال قبل جب انہیں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ کیپ دی گئی تو انہوں نے کراچی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں مجموعی طور پر سات وکٹیں حاصل کیں۔

انہیں جب بھی موقع دیا گیا نعمان نے بہترین پرفارمنس دی۔ جیسا کہ زمبابوے کے خلاف ہرارے ٹیسٹ میں پانچ وکٹیں، آسٹریلیا کے خلاف پنڈی ٹیسٹ میں چھ وکٹیں، سری لنکا کے خلاف کولمبو ٹیسٹ میں سات وکٹیں اور اب انگلینڈ کے خلاف آٹھ وکٹوں کی یہ شاندار پرفارمنس۔

ساجد خان کے صبر کا پیمانہ بھی کبھی لبریز نہیں ہوا۔ ملتان ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں سات وکٹوں کی شاندار کارکردگی کے بعد پریزینٹر زینب عباس سے گفتگو کے دوران وہ اپنے دل کی بات نہیں چھپا سکے کہ انہوں نے جب بھی پرفارمنس دی انہیں ٹیم سے باہر کردیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہاں سابق چیف سلیکٹر محمد وسیم کا ذکر نہ کرنا بڑی زیادتی ہو گی کیونکہ یہ محمد وسیم ہی ہیں، جنہوں نے بحیثیت چیف سلیکٹر اپنی پہلی ٹیسٹ سیریز میں، جو جنوبی افریقہ کے خلاف تھی، کے لیے کامران غلام، نعمان علی، ساجد خان، سلمان علی آغا، عبداللہ شفیق، سعود شکیل اور تابش خان کو سلیکٹ کیا تھا۔

آپ کو یاد ہوگا کہ اس وقت محمد وسیم کا لیپ ٹاپ چیف سلیکٹر کہہ کر مذاق بھی اڑایا گیا تھا۔ لیکن آج انہی کے منتخب کردہ کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا حصہ ہیں۔

آج ہم ڈیٹا کی بہت باتیں سنتے ہیں اتفاق سے ڈیٹا پر بھی کام محمد وسیم کے وقت میں ہوا تھا، جس میں ان کی مدد ہمارے ایک پیارے دوست کامران مظفر نے کی تھی۔

اور اب ذکر ہو جائے بابراعظم اور شاہین شاہ آفریدی کا، جنہیں نئی سلیکشن کمیٹی نے انگلینڈ کے خلاف دوسرے اور تیسرے ٹیسٹ کی ٹیم میں شامل نہیں کیا۔

اس فیصلے، خاص کر بابراعظم کو ٹیم میں شامل نہ کیے جانے پر، ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بہت شور مچا لیکن اگر ٹھنڈے دماغ سے تمام صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بابراعظم کے لیے ہی بہتری نظر آرہی ہے، کیونکہ وہ جتنا مزید کھیلتے اور رنز نہ کرتے ان پر دباؤ بڑھتا چلا جاتا۔

بابراعظم پچھلی 18 اننگز میں اگر ایک بھی نصف سنچری اسکور نہیں کر پائے ہیں تو یہ فارم اور تیکنیک سے زیادہ ذہنی سکون کا معاملہ معلوم ہوتا ہے، جو اس وقت بابراعظم جیسے ورلڈ کلاس بیٹسمین کے ساتھ درپیش ہے اور یہی بات سلیکٹرز اظہرعلی اور اسد شفیق نے بابراعظم سے گفتگو کے دوران کہی کہ انہیں اس وقت آرام کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ خود کو تازہ دم کرسکیں۔

بابراعظم پچھلے کچھ عرصے کے دوران کپتان بننے اور کپتانی چھوڑنے کے سلسلے میں شہ سرخیوں رہے ہیں۔ ساتھی کھلاڑیوں خاص کر کپتانی کے معاملے پر شاہین آفریدی اور ان کے تعلقات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہے۔ ظاہر ہے یہ معاملات بھی ان کی بیٹنگ پر اثرانداز ہوئے ہیں۔

یہ بات تو طے ہے کہ بابراعظم جیسا ورلڈ کلاس بیٹسمین زیادہ عرصے باہر نہیں بیٹھ سکتا۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ ان کی واپسی کب اور کیسے ہوتی ہے، کیونکہ انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے بعد پاکستانی ٹیم کو آسٹریلیا کا دورہ کرنا ہے، جس میں کوئی ٹیسٹ شامل نہیں اور ٹیم نے تین تین ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کھیلنے ہیں۔

اگر ہم بابراعظم کی وائٹ بال کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو ون ڈے انٹرنیشنل میں ان کا ریکارڈ شاندار رہا ہے۔ وہ اس وقت آئی سی سی کی عالمی ون ڈے رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہیں۔ انہوں نے انڈیا میں منعقدہ ورلڈ کپ میں چار نصف سنچریاں بنائی تھیں لیکن اس بات کو بھی تقریباً 11 ماہ گزرچکے ہیں اور پاکستانی ٹیم اس کے بعد سے کوئی ون ڈے نہیں کھیلی۔ لہذا آسٹریلوی دورہ پاکستانی ٹیم، خاص کر بابراعظم کے لیے کسی امتحان سے کم نہ ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر