برطانوی عدالت کو بتایا گیا ہے کہ سارہ شریف کے جسم کے مختلف حصوں پر 25 فریکچرز پائے گئے جن کی وضاحت نہیں کی گئی جبکہ ان کی گردن پر ’غیر معمولی‘ زخم پایا گیا، جو کہ ریڈیالوجسٹ نے کسی بچے کے جسم پر کبھی نہیں دیکھا۔
ہڈیوں کے سکین نے انکشاف کیا کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی 10 مقامات پر ٹوٹی ہوئی تھی اور ان کی دائیں کلائی، بائیں اور دائیں کندھے کی ہڈی، ریڑھ کی ہڈی، پسلیوں، کہنی اور ہاتھوں پر بھی فریکچرز پائے گئے۔
پروفیسر اوون آرتھرز، جنہوں نے 10 سالہ بچی کے جسم کا معائنہ کیا، نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سب سے زیادہ امکان ہے کہ یہ چوٹیں ’ہفتوں کے دوران بار بار ہونے والے جسمانی تشدد‘ کے نتیجے میں آئیں۔
قبل ازیں جیوری کو بتایا گیا کہ سکول میں زیر تعلیم مذکورہ لڑکی کو 70 سے زیادہ چوٹیں آئیں۔ انہیں گذشتہ سال 10 اگست کو ووکنگ، سرے میں ان گھر میں مردہ حالت میں پایا گیا۔
ان چوٹوں میں ممکنہ طور پر انسانی دانتوں کے نشانات، گرم پانی سے جلانا، استری سے جلانا، ہڈیوں کی چوٹیں اور دماغ میں خون بہنا شامل تھا۔
بچی کے والد 42 سالہ عرفان شریف، سوتیلی ماں 30 سالہ بینش بتول، اور ان کے چچا 29 سالہ فیصل ملک کو ان کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور اس وقت وہ اولڈ بیلی میں مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔
جمعے کو بچوں کے ماہر ریڈیالوجسٹ پروفیسر آرتھرز نے جیوری کو بتایا: ’میرے خیال میں اس کیس میں زیادہ تر فریکچرز بہت زیادہ خلاف معمول نوعیت کے تھے۔ انہیں کسی حادثے کا نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی ایک ہی بار لگنے والی کسی چوٹ کا نتیجہ۔‘
جب استغاثہ نے ان سے سارہ کی گردن کے اوپری حصے کی انگریزی حرف یو جیسی ’ہائی اوئڈ‘ ہڈی پر لگی خاص چوٹ کے بارے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ایسی چوٹ ’انتہائی کم‘ دیکھنے میں آتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’میں نے کبھی کسی بچے میں ہائی اوئڈ فریکچر نہیں دیکھا۔ حتیٰ کہ ان کیسز میں بھی جن میں گلا گھونٹنے کی واضح علامات موجود تھیں، جیسے کہ پھانسی کی صورت میں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پروفیسر آرتھرز نے کہا کہ’یہاں سب سے زیادہ ممکنہ صورت ہاتھ سے گلا گھونٹنے کی ہے، جس میں وہ طاقت استعمال کی گئی جو عام طور پر پھانسی کے ذریعے گلا گھونٹنے سے زیادہ تھی۔‘
ان کی ریڑھ کی ہڈی میں پائے جانے والے فریکچرز کے بارے میں پروفیسر آرتھرز نے بتایا کہ اس قسم کی چوٹیں عام طور پر ٹریفک حادثات یا بلندی سے گرنے کی وجہ سے آتی ہیں۔ یہ چوٹیں غالباً ’زور سے ماری گئی شے یا بار بار تشدد‘ کی وجہ سے آئیں۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ سارہ کو کسی اندرونی ہڈی کی خرابی یا کسی بیماری کا سامنا تھا۔
’میری رائے میں چوٹوں کی مجموعی حالت کی سب سے زیادہ ممکنہ وضاحت، بشمول مقام، انداز، شدت، شفایابی کا طریقہ اور دوبارہ ہونے والے کچھ فریکچرزکے پیش نظر، یہ ہے کہ سارہ کو کئی ہفتے تک متعدد بار جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘
ان مختلف فریکچرز میں سے کئی کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ ان کی موت سے چند ہفتے پہلے ہوئے اور مانا جاتا ہے کہ ہائی اوئڈ ہڈی کی چوٹ ان کی موت سے چھ سے 12 ہفتے قبل، آٹھ اگست سے پہلے آئی۔
قبل ازیں مقدمے کی سماعت کے دوران بتایا گیا کہ جس امراض کے ماہر نے سارہ کے جسم کا پوسٹ مارٹم کیا، انہوں نے ان کی موت کی وجہ ’کئی چوٹوں اور نظرانداز کیے جانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیاں‘ بتائیں۔
پولیس افسروں کو سارہ علی الصبح ملیں جب ان کے والد نے پاکستان سے سرے پولیس کو فون کیا اور کہا کہ ’میں نے اسے بہت زیادہ مارا۔‘
الزام یہ ہے کہ سارہ دو دن قبل فوت ہو چکی تھیں اور ملزموں نے ان کی موت کے چند گھنٹے بعد میں ملک سے باہر جانے کے لیے پروازیں بُک کر لی تھیں۔
سارہ کے تکیے کے پاس ایک تحریر بھی ملی جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ شریف کی تھی جس میں لکھا تھا کہ ’میں عرفان شریف ہوں، جس نے اپنی بیٹی کو مار مار کر قتل کیا۔
میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہیں تھا لیکن میں اپنے ہوش کھو بیٹھا۔‘
استغاثہ نے بتایا کہ پولیس کی تفتیش کے دوران گھر میں سارہ کے خون کے نشانات کچن کے فرش، ویکیوم کلینراور کرکٹ بیٹ پر ملے اور ’گھریلو ساختہ نقاب‘ بھی پائے گئے جنہیں سارہ کو قابو کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
ہامونڈ روڈ، ووکنگ کے رہائشی تینوں ملزمان نے قتل اور 16 دسمبر 2022 سے نو اگست 2023 کے درمیان بچی کی موت کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے کے الزامات سے انکار کیا ہے۔
مقدمے کی کارروائی جاری ہے۔
© The Independent