تحریک طالبان پاکستان اور داعش خراسان کے درمیان لفظی جنگ

دونوں گروہ ایک دوسرے کے عسکریت پسندوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کی امید میں اپنے زبانی حملوں میں بھی احتیاط برتتے رہے تھے، تاہم یہ صورت حال بتدریج تبدیل ہو رہی ہے۔

15 نومبر 2021 کو قندھار میں افغان طالبان کا رکن داعش خراسان کے خلاف آپریشن کے بعد مشتبہ ٹھکانے کے ملبے کے سامنے پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی)

افغانستان اور پاکستان کا عسکریت پسندی کا منظرنامہ زمینی اور سائبر سپیس دونوں جگہوں پر اتحاد، انضمام اور دشمنی کے رجحانات سے بھرا ہوا ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران، کئی گروہوں کے ضم، تقسیم، دوبارہ ضم اور دوبارہ تقسیم کے عمل نے ایک پیچیدہ آپریشنل ماحول کو جنم دیا ہے۔

متضاد طور پر، اتحاد اور دشمنی دونوں عسکریت پسند گروہوں کی عمر کی میعاد اور لچک سے مثبت طور پر منسلک ہیں۔ اتحاد عسکریت پسند گروہوں کو افرادی قوت اور مالی وسائل اکھٹا کرنے، مشترکہ مخالفین کے خلاف جغرافیائی محاذ کو وسعت دینے اور ایک جیسے نظریاتی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے زیادہ مواقع پیدا کرتا ہے۔

جبکہ مد مقابل گروه مسابقتی آپریشنل ماحول میں نئی مہارتیں، حربے اور طور طریقے سیکھتے ہیں، جو ان کی تحریکوں کو پرخطر بناتے اور دوام بخشتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش خراسان کے درمیان جاری لفظی جنگ اس رجحان کی بہترین مثال ہے۔

رواں برس ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کے درمیان لفظی جنگ میں ایک منظم تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے اور ان کے ایک دوسرے پر زبانی حملے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ بنیادی طور پر، ان کی نظریاتی مخاصمت دیوبندی بمقابلہ سلفی اور مقامی بمقابلہ عالمی عسکریت پسندی کے مباحثے پر مرکوز ہے۔

اگرچہ داعش خراسان اپنی اوائل عمری میں اورکزئی اور باجوڑ کے اضلاع سے تعلق رکھنے والے ٹی ٹی پی کے دو الگ دھڑوں پر مشتمل تھا لیکن حال ہی میں دونوں عسکریت پسند گروہوں نے اپنی نظریاتی دشمنی کو عملی طور پر منظم کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دونوں ایک دوسرے کے عسکریت پسندوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کی امید میں اپنے زبانی حملوں میں بھی احتیاط برتتے رہے تھے، تاہم یہ صورت حال بتدریج تبدیل ہو رہی ہے کیونکہ داعش خراسان اب اپنی پروپیگنڈا اشاعتوں میں ٹی ٹی پی کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے۔ 

جیسا کہ داعش خراسان نے اپنے اردو زبان کے میگزین ’ندائے خراسان‘ کے تیسرے شمارے میں علاقائی قوم پرستی کی حمایت کرنے پر ٹی ٹی پی کو تنقید کا نشانہ بنایا، اس کی پاکستان پر مرکوز عسکریت پسندی کی طرف اشارہ کیا اور عالمی عسکریت پسندی سے منسلک سابق خیالات سے روگردانی پر آڑے ہاتھوں لیا۔

نظریاتی طور پر ٹی ٹی پی افغان طالبان کے سپریم رہنما ہبت اللہ اخونزادہ کی حامی ہے، جس نے افغانستان میں داعش کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو قتل کیا ہے۔ اس کے برعکس، داعش خراسان نے اپنی پروپیگنڈا مہم میں طالبان کے نظریات پر تابڑ توڑ حملے کیے ہیں اور افغانستان میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ دوحہ معاہدہ 2020 کو ’حقیقی جہاد‘ سے روگردانی کے طور پر پیش کیا ہے۔

 اس ساری صورت حال میں ٹی ٹی پی نے ایک حقیقت پسند حکمت عملی کے تحت خود کو اس مخاصمے سے دور رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔

مئی کے آخر میں، اس رحجان میں اس وقت تبدیلی دیکھنے میں آئی جب ٹی ٹی پی کی لیڈر شپ کونسل کے ایک رکن قاری شعیب باجوڑی نے ایکس پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں داعش خراسان کے عسکریت پسندوں، القاعدہ اور افغان طالبان کو انتہائی باغی عناصر قرار دیا۔

داعش خراسان کے بارے میں ٹی ٹی پی کے موقف کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ داعش کے ساتھ کوئی خفیہ معاہدہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ٹی ٹی پی ایک اور محاذ کھولنے سے بچنے کے لیے داعش خراسان کے ساتھ جنگ ​​نہیں چاہتی‘ اور اپنی توجہ پاکستان میں افغان طالبان جیسی تھیوکریسی کے قیام کے اپنے بنیادی اہداف پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔

جس کے بعد جواب دیتے ہوئے داعش خراسان نے دو جون کو 47 منٹ کا آڈیو بیان جاری کیا جس میں ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’قبائلی دیوبندی اور مقامی ملیشیا‘ قرار دیا، جس نے اپنی عسکری مہم کو پاکستان تک محدود کر رکھا ہے اور اس کا کوئی عالمی ایجنڈا نہیں ہے۔

اس سے پہلے 2018 میں ٹی ٹی پی نے اعلان کیا تھا کہ اس کا پاکستان سے آگے کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ مزید برآں، داعش خراسان نے الزام لگایا کہ افغان طالبان پاکستان میں ٹی ٹی پی کی نظریاتی پوزیشن اور آپریشنل رفتار کو کنٹرول کرتے ہیں۔ داعش نے اپنے اس الزام کو مستند کرنے کے لیے 2021 اور 2022 میں پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان دو مختصر مدت کی جنگ بندی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدے افغان طالبان کی ہدایات پر ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ داعش نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی مبینہ طور پر پاکستان میں جمہوریت کی حامی مذہبی سیاسی جماعتوں، جیسا کہ جمعیت علمائے اسلام ف کی حامی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی قریب میں ٹی ٹی پی نے اپنے مختلف بیانات میں پاکستان کے اندر شرعی نظام کے قیام کی غرض سے متحدہ محاذ بنانے کے لیے پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا ہے۔

پاکستانی طالبان سے اپنی لفظی مخاصمت کو برقرار رکھتے ہوئے 24 جولائی کو داعش خراسان نے 71 منٹ کی ایک اور آڈیو شائع کی، جس میں ٹی ٹی پی کے سابق نائب رہنما شیخ خالد حقانی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ خالد حقانی نے ماضی میں داعش کے خلافت کے دعوے کو خود ساختہ اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے بہت سے سوال اٹھائے تھے۔

جس کے جواب میں داعش خراسان نے حقانی کو ایک ’اَن پڑھ مولوی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے پاس مذہبی معلومات کی کمی ہے اور انہوں نے اس کی تنقید کو بے بنیاد قرار دیا۔ اس کے برعکس داعش خراسان نے ٹی ٹی پی کی ہبت اللہ سے وفاداری کے حلف پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے افغانستان میں ایک چھوٹی کرپٹ امارت کو کنٹرول کرنے والا ایک منحرف گروہ قرار دیا۔

مختصراً، داعش خراسان ٹی ٹی پی پر اس کی علاقائی عسکریت پسندی کی نظر، طالبان کی تابعداری اور جمہوریت نواز پاکستانی مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے نرم رویہ اپنانے پر تنقید کے نشتر برسا رہی ہے۔

ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کی بڑھتی ہوئی دشمنی پاکستان کے عسکریت پسندی کے منظرنامے میں اتحاد اور دشمنی کے عمل کو تیز تر کر رہا ہے۔ اگرچہ دونوں گروہوں نے جنگی محاذ پر ایک دوسرے کو نشانہ بنانے سے گریز کیا ہے، لیکن بڑھتا ہوا پروپیگنڈا بہت جلد مسلح جھڑپوں میں تبدیل ہو سکتا ہے، تاہم اس کے امکانات فی الحال بہت ہی کم ہیں۔

مصنف ایس راجارتنم سکول آف سٹیڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایشن ایٹ فیلو ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر