پاکستان اور ٹی ٹی پی میں دوبارہ ثالثی کر سکتے ہیں: افغان طالبان

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو خصوصی انٹرویو میں کہا: ’ہم صلح کے لیے کوشش کریں گے، اگر پاکستان چاہے۔ اگر پاکستان نہیں چاہتا تو پھر ہم مداخلت نہیں کر سکتے اور پھر یہ ان کا کام ہے اور ان کا اندرونی مسئلہ ہے۔‘

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان کا ’اندرونی معاملہ‘ قرار دیتے ہوئے پیشکش کی ہے کہ اگر اسلام آباد چاہے تو امارت اسلامی دونوں فریقوں کے درمیان ثالثی کی کوشش کرسکتی ہے۔

افغانستان میں نیٹو افواج کے اخراج کے بعد افغان طالبان کی کابل میں نگران حکومت کے قیام کو تین سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس تین سالہ دور حکومت سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو نے افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا انٹرویو کیا، جس کے دوران انہوں نے اپنی حکومت، افغانستان کو درپیش چیلنجز اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں خصوصی گفتگو کی۔

اس گفتگو کو ذیل میں من و عن پیش کیا جا رہا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو: امریکی افواج کے جانے کے بعد افغان طالبان کی تین سالہ حکومت میں کیا کامیابیاں حاصل کیں اور افغانستان میں کیا بدلا ہے؟

ذبیح اللہ مجاہد: اس سے پہلے افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی افواج موجود تھیں، افغانستان میں جھگڑا تھا اور روزانہ کی بنیاد پر 100 سے زیادہ لوگ مارے جاتے تھے۔ افغانستان میں بد امنی، فساد اور غاصب کی موجودگی تھی۔ بہت زیادہ مسائل تھے اور منشیات بھی موجود تھی۔

جب افغانستان میں طالبان کی حاکمیت قائم ہوئی تو سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ غیر ملکی افواج نکل گئیں اور دوسرا یہ کہ افغانستان میں امن قائم ہوا اور تیسرا افغانستان میں ایک واحد حکومت بنی، جس میں اختلافات نہیں ہیں۔

منشیات کے خاتمے اور اقتصاد میں بہتری کے لیے اقدامات کیے گئے۔ پانچواں افغانستان کی زمین محفوظ ہوئی اور ماضی کی طرح مسائل ختم ہوئے۔

افغانستان میں غاصبوں اور فساد کا راستہ روکا گیا۔ اسلامی امارت حاکم ہوئی اور یہ افغانستان کے عوام کے مطالبات تھے، جو بہت حد تک پورے ہوئے۔ البتہ یہ سارا کام کافی نہیں ہے اور ہم مزید بھی آگے جائیں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو: ابھی تک افغان طالبان کی حکومت کو کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ اس کی کیا وجہ ہے اور تسلیم کرنے میں کیا مشکلات ہیں؟

ذبیح اللہ مجاہد: حقیقی بات یہ ہے کہ ایک تسلیم کرنے کا اعلان ہے اور ایک تسلیم کرنے کا عمل ہے۔ عملی طور پر بہت سے ممالک ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔ 40 ممالک کے سفارت خانے یہاں موجود ہیں اور ہمارے ان ممالک میں موجود ہیں۔ ان ممالک کے ساتھ تجارتی اور ٹرانزٹ تعلقات استوار ہیں۔ ان ممالک کا ہم سفر کرتے ہیں اور سرکاری سطح پر ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ وہ ساری چیزیں جو تسلیم کرنے کے ساتھ جڑی ہیں، وہ موجود ہیں لیکن اعلان ابھی نہیں ہوا ہے۔ 

ہمارے ہمسایوں، اسلامی اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں۔ البتہ یورپ اور امریکہ جیسے ممالک جو 20 سال تک ہمارے ساتھ جنگ لڑتے رہے، ہو سکتا ہے وہ کچھ کینہ اور بغض رکھتے ہوں، لیکن وہ مسئلہ بھی آہستہ آہستہ حل ہو جائے گا اور بہت حد تک یہ حل ہوا بھی ہے۔ 

امریکہ نہیں چاہتا کہ مغربی ممالک ہماری حکومت تسلیم کریں۔ وہ ہمارے ساتھ جنگ کرتا رہا ہے اور مخالفت بھی کرتا رہا۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ وہ بعض ادارے جیسے اقوام متحدہ کو ہماری حکومت تسلیم کرنے دے۔

انڈپینڈنٹ اردو: چین نے کابل کے لیے اپنا سفیر تعینات کیا اور آپ کے ان سے اچھے تعلقات بھی ہیں۔ چین افغانستان میں لیتھیم اور کان کنی میں سرمایہ کاری بھی کر چکا ہے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ چین کے ساتھ اچھے تعلقات امریکہ کے لیے آپ کو تسلیم کرنے میں ایک رکاوٹ ہیں؟

ذبیح اللہ مجاہد: نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان رقابتوں کی بھینٹ چڑھ جائے۔ ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان دیگر ممالک کے لیے سیاست کا میدان بن جائے۔ ہم سب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور جس طرح چین کے ساتھ تعلقات ہیں۔ سارے یہاں سرمایہ کاری کریں اور سفارتی تعلقات استوار کریں۔ ہم امریکہ، یورپ اور روس سے بھی اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔

ہم ایسی سیاست نہیں کرتے کہ ایک ملک کے بہت قریب اور دوسرے سے دور ہو جائیں۔ ہم نے اپنی کوشش کی ہے کہ امریکہ سے تعلقات بہتر ہو جائیں لیکن ان کی طرف سے کچھ نہیں آیا، تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ اس کا ہم انتظار نہیں کر سکتے، ہم دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بنائیں گے لیکن یہ کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں ہوں گے۔ ہم ہر کسی سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو: پاکستان اور افغانستان پڑوسی ممالک ہیں۔ ماضی میں تعلقات کبھی اچھے کبھی برے چلے آرہے ہیں، لیکن آپ کی حکومت آنے کے بعد تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اور اس کی وجہ پاکستان کی جانب سے یہ الزام ہے کہ پاکستانی طالبان افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ سوچا ہے کہ یہ کیسے حل ہو گا؟

ذبیح اللہ مجاہد: ہم پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ بھائی چارے کے تعلقات رکھیں۔ پاکستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ ہماری زبان ایک ہے۔ مذہب ایک ہے اور دو طرفہ تجارتی تعلقات ہیں۔ ایک کلچر بھی ہے اور اتنی زیادہ چیزیں مشترک ہیں کہ دوسرے کسی ملک کے ساتھ افغانستان کی نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ہم بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ اچھے تعلقات ہماری اور پاکستان کی ضرورت ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام کا بھی افغان عوام کے ساتھ بھائی چارے اور اخوت کا تعلق ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن افسوس یہ ہے کہ بعض اقدامات جو پاکستان میں ہو رہے ہیں جیسے ٹی ٹی پی کا مسئلہ، جو پچھلے 20 سال سے ہے اور ٹی ٹی پی نے پاکستان میں جنگ کی ہے اور ان کے خلاف آپریشن ہوئے، جن میں ضرب عضب وغیرہ شامل ہیں، جو پاکستان نے کیے ہیں۔ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے اور کارروائیوں میں کمی یا زیادتی ٹی ٹی پی کے لوگوں کے ساتھ جڑی ہے۔

لیکن افسوس یہ ہے کہ ہر کارروائی کا ذمہ دار افغانستان کو ٹھہرایا جاتا ہے، جس سے بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے سکیورٹی ادارے امن قائم کرنے پر توجہ دیں۔ پولیس، انٹیلی جنس ادارے امن کے قیام پر توجہ دیں۔ بنوں یا کسی دوسرے علاقے میں کارروائی کا ذمہ دار افغانستان کو کیوں ٹھہرایا جاتا ہے۔

ہم کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ افغانستان سے کسی دوسرے ملک میں جنگ کرے۔ ہم جنگ کو پسند نہیں کرتے اور کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ افغان سر زمین پاکستان یا کسی بھی ملک کے خلاف  استعمال ہو۔

اگر پاکستان کے پاس کوئی معلومات ہیں تو وہ ہمارے ساتھ شیئر کرے کہ کہاں پر انہیں افغانستان سے مسئلہ ہے، لیکن میڈیا پر الزامات لگانا عوام کے مابین نفرتیں پھیلاتا ہے اور اس سے بے اعتمادی کی فضا قائم ہوتی ہے اور اس میں نقصان ہے کیونکہ ہم پاکستان سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو:  پہلے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت میں افغان طالبان نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔ کچھ عرصے تک مذاکرات کا دور چلا لیکن کامیابی نہیں ملی۔ اب پھر کوئی ایسا منصوبہ ہے کہ بات چیت میں ثالثی کا کردار ادا کریں اور ٹی ٹی پی کے مسئلے کو حل کریں، جو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تناؤ کی وجہ ہے؟

ذبیح اللہ مجاہد: اس صورت میں ہم ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں جب پاکستان چاہے۔ پاکستانی حکومت اگر چاہے تو پھر ہم بھائی چارے کے اصولوں پر اپنی کوششیں کریں گے۔

 اللہ فرماتے ہیں کہ ’لہ انما المومین اخوت بینکم صلح‘ یعنی مومنین آپس میں بھائی ہیں اور ان کے مابین صلح کرواؤ۔ ہم صلح کے لیے کوشش کریں گے، اگر پاکستان چاہے۔ اگر پاکستان نہیں چاہتا تو پھر ہم مداخلت نہیں کر سکتے اور پھر یہ ان کا کام ہے اور ان کا اندرونی مسئلہ ہے، لیکن اگر چاہے کہ ہم ثالثی کریں تو پہلے بھی ہم یہ کر چکے ہیں اور پھر بھی کریں گے۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ ہمیں پتہ چلے کہ یہ دونوں کی خواہش ہے کہ مسئلہ حل ہو، لیکن ہم ویسے مداخلت نہیں کرتے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو: اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان نے پوست کی کاشت 95 فیصد کم کی ہے۔ یہ کام امریکہ گذشتہ 20 سالوں میں نہیں کر سکا اور اس پر نو ارب ڈالر بھی خرچ کیے تھے۔ اتنے کم عرصے میں پوست کی کاشت کیسے ختم کی اور یہ بھی بتائیں کہ پوست کے کاشت کاروں کو کیا متبادل روزگار دیا گیا ہے؟

ذبیح اللہ مجاہد: ہم نے پوست کی کاشت ختم کرنے لیے اقدامات اٹھائے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ افغانستان میں 40 لاکھ سے زائد لوگ منشیات کے عادی ہیں۔ افغانستان سے منشیات دیگر ممالک کو سمگل کی جاتی تھی، جس سے انسانوں کو خطرہ تھا، اسی وجہ سے ہم نے کوششیں شروع کیں اور پوست کاشت کرنے نہیں دی۔

اچھی بات یہ ہے کہ کاشت کاروں نے بھی کاشت نہیں کی۔ تھوڑی بہت کاشت ہوئی ہے لیکن اس کی روک تھام بھی کی گئی ہے۔ منشیات کی سمگلنگ اور تجارت بند ہو گئی ہے، لیکن افسوس کہ جو ممالک افیون یا ہیروئن سے متاثر تھے، انہوں نے افغانستان میں اس کے خاتمے کے لیے کوئی مدد نہیں کی۔ یہ ان ممالک کی ذمہ داری ہے کیونکہ اگر کاشت کار دوبارہ پوست کاشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تو اس سے ان ممالک کا نقصان ہو گا۔

اب بہتر ہے کہ ان کاشت کاروں کی بین الاقوامی کمیونٹی مدد کرے کیونکہ ان کے پاس پوست کی کوشت کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ بہت کم کاشت کار گندم کاشت کرتے ہیں لیکن وہ بہت کم ہیں اور گندم سے ان کا گزارا نہیں ہوتا۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کاشت کاروں کی مدد کی جائے۔ ہم نے اپنا کام کیا کہ پوست کی کاشت کو بند کروایا لیکن اب ان کاشت کاروں کے ساتھ دوسرے ملک اپنی ذمہ داری پوری کریں تاکہ پھر یہ پودا نہ اگے اور پھر اس سے دوسرے معاشرے متاثر نہ ہوں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو: اگر اقتصاد کی بات کریں تو افغانستان کی شرح نمو منفی 20 سے منفی چھ پر آگئی ہے۔ معیشت کے شعبے میں کیا ہو رہا ہے اور مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟

ذبیح اللہ مجاہد: افغانستان کی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے اور امید ہے کہ یہ مزید بہتر ہو گی۔ ہم جب آئے تو شرح نمو میں بہتری دیکھی گئی۔ ہم سے پہلے برآمدات 800 ملین ڈالر تھیں، جب کہ ہماری حکومت میں پہلے سال میں 1300 ملین، دوسرے سال 2000 ملین ڈالر اور اب تیسرے سال بھی 2000 ملین ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کے درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔

برآمدات بھی ٹھیک ہیں کیونکہ بازاروں میں سب غذائی اجناس بشمول تیل اور گیس اور تمام ضرورت کی اشیا موجود ہیں اور قیمتیں بھی کم ہیں۔

ہماری حکومت نے افغانستان کی کرنسی کی خوب حفاظت کی اور اچھی بینک پالیسی بنائی ہے اور اب بھی افغان کرنسی ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہے۔ ایک ڈالر 70 افغانی کے برابر ہے، جو ماضی میں 130 تک پہنچ گیا تھا۔

ہم نے سمگلنگ اور غیر قانونی تجارت کا راستہ روکا ہے اور ٹیکس نظام میں شفافیت موجود ہے۔ کوئی چوری نہیں کر سکتا اور پیسے ضائع نہیں کر سکتا۔

اس سب کے ذریعے ہماری حکومت نے افغانستان کو ایک اقتصادی قوت بنایا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بعض بڑے منصوبے جو پچھلی حکومتوں نے شروع کیے لیکن آدھے رہ گئے تھے، وہ دوبارہ شروع کیے۔ چین کے ساتھ مختلف منصوبوں پر دستخط کیے، جن میں آئرن دھات اور میس عینک منصوبے بھی شامل ہیں۔ تقریباً 200 منصوبوں پر کام شروع کیا ہے جن سے لوگوں کو روزگار بھی ملا۔

سڑکیں بن رہی ہیں اور آہستہ آہستہ اقتصاد بہتری ہو رہی ہے۔ 40 سال سے ویران ملک چار پانچ سالوں میں ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ امید ہے دس پندرہ سالوں میں ہم بڑی تبدیلیاں دیکھ سکیں گے جن سے افغان عوام کی حالت بہتر ہو گی۔

انڈپینڈنٹ اردو: طورخم بارڈر پر افغانستان اور پاکستان کے مابین جھڑپیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کچھ دن پہلے بھی ایک واقعہ ہوا ہے۔ ان واقعات سے بارڈر بند ہو جاتا ہے، جس سے عام لوگ متاثر ہوتے ہیں، جو افغانستان یا پاکستان سے جاتے ہیں یا افغانستان سے جو مریض آتے ہیں۔ کیا اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستانی حکومت سے بات چیت نہیں ہو سکتی کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے؟

ذبیح اللہ مجاہد: ہم نے بہت کوشش کی ہے کہ پاکستان کے ساتھ مشکلات سامنے نہ آئیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک حکومت آکر ایک پالیسی جبکہ دوسری حکومت دوسری پالیسی بناتی ہے۔ پالیسی میں تبدیلی آتی رہتی ہے لیکن ہم پھر بھی کوشش کرتے ہیں کہ سرحد اور تجارت کے شعبے کو سیاست سے دور رکھیں۔

پاکستان کو اگر شکایت ہے تو وہ مناسب فورم پر بات کرے تاکہ وہیں پر اس کا حل نکالا جا سکے۔ بارڈر بند ہونے سے پاکستان اور افغانستان کے تاجر متاثر ہوتے ہیں۔ بارڈر بند ہوتا ہے تو سینکڑوں گاڑیاں جن پر پھل وغیرہ ہوتے ہیں سارے خراب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی طرف سے گاڑیوں میں دوائیاں اور غذائی اجناس خراب ہو جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکومتوں کو نقصان نہیں بلکہ نقصان تاجروں کا ہوتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان یہ معاملات سیاست سے دور رکھے۔ کسی جگہ پر جنگ ہوتی ہے تو اسی جگہ پر حل کیا جائے۔

دونوں جانب مشران موجود ہیں اور بات چیت سے حل نکالیں گے لیکن دروازے بند کرنا، گاڑیوں کو بند کرنا، کراچی بندرگاہ پر سامان روکنا اور روز نئی پالیسی بنانا دونوں جانب کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں ایسا نہ ہو اور دونوں ملکوں کے تاجروں کو نقصان نہ ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان