روسی علاقے ولادی میر میں حکام نے سکول کے اوقات میں طالبات کے حجاب لینے پر پابندی عائد کر دی۔
روس کے اخبار دا ماسکو ٹائمز کے مطابق پابندی گذشتہ منگل کو لگائی گئی۔ تاہم ہفتے کو ولادی میر ریجن کی وزارت تعلیم نے ایک بیان میں کہا کہ ’تعلیمی اداروں میں طلبہ کی مذہبی وابستگی کو ظاہر کرنے والے لباس اور لوازمات کی اجازت نہیں‘ جن میں حجاب اور نقاب بھی شامل ہیں۔
بیان میں زور دیا گیا کہ پابندی سے طلبہ کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی کیونکہ روس کے آئین میں ملک کو ایک سیکولر ریاست قرار دیا گیا ہے جس میں کوئی سرکاری مذہب نہیں۔
وزارت کا کہنا تھا کہ ’سکول کے یونیفارم اور طلبہ کی ظاہری وضع قطع کے تقاضے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، ریاستی اور مقامی تعلیمی اداروں کے سیکولر کردار اور مذہبی غیر جانبداری کو یقینی بناتے ہیں۔‘
مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ولادی میر ریجن روس کا پہلا علاقہ ہے جہاں سکولوں میں حجاب پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
2015 میں روس کی سپریم کورٹ نے جمہوریہ موردوویا کے سکولوں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا تھا، جس سے اس قسم کی پہلی قانونی نظیر سامنے آئی۔ دو سال بعد ایک مقامی عدالت نے اساتذہ کے لیے حجاب لینے پر پابندی ختم کر دی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ولادی میر ریجن نے 2017 میں سکولوں کے لیے لباس کا ضابطہ متعارف کروایا جس میں کہا گیا تھا کہ طالبات کو ’سیکولر‘ اور ’رسمی طرز‘ کے کپڑے پہننے ہوں گے۔ حجاب پر تازہ پابندی اس ڈریس کوڈ کو مزید سخت کر رہی ہے۔
قبل ازیں رواں سال روس میں حجاب پر پابندی کے مطالبے اس وقت دوبارہ زور پکڑ گئے جب مارچ میں ماسکو میں موسیقی کے پروگرام کے انعقاد کے مقام پر جاں لیوا حملے کے بعد امتیازی سلوک اور دوسری ثقافتوں سے نفرت میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کانسرٹ پر فائرنگ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔
جون میں شمالی قفقاز کے روسی جمہوریہ داغستان میں ہونے والے ایک اور جان لیوا حملے کے بعد ایک بڑے مسلم عالم نے ’حفاظتی اقدامات‘ کے پیش نظر عارضی طور پر نقاب (پورے چہرے کا پردہ) پر پابندی عائد کی۔
اگرچہ مسلمان روس کا دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروہ ہیں، انسانی حقوق کے کارکن اور علاقائی میڈیا باقاعدگی سے ایسی خبریں دیتے ہیں جن میں اسلامی مذہبی لباس پہننے والی خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے واقعات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔