انسان مصنوعی ذہانت کے ماڈلز سے زیادہ بہتر لکھاری ہے: تحقیق

سینکڑوں انسانوں کی لکھی  کہانیوں کا مصنوعی ذہانت کے مقبول پلیٹ فارمز کی لکھی کہانیوں سے موازنہ کر کے کیلی فورنیا یونیورسٹی کے ایک محقق نے انسانی کام کو بہتر پایا۔

16 جولائی 2023 کی اس تصویر میں ہالی ووڈ کے لکھاری ہالی ووڈ، کیلیفورنیا میں نیٹ فلکس کے سامنے ہڑتال کے چوتھے روز مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مصنف ایرک ہیسرر بھی پوسٹر اٹھائے نمایا ہیں  (اے ایف پی)

نئی تحقیق کے مطابق تخلیقی تحریری کلاس کے لیے طلبہ کی لکھی کہانیاں شاید مصنوعی ذہانت کی تحریروں کے مقابلے میں زیادہ متاثر رہیں گی۔ سینکڑوں انسانوں کی لکھی  کہانیوں کا مصنوعی ذہانت کے مقبول پلیٹ فارمز کی لکھی ہوئی کہانیوں سے موازنہ کرتے ہوئے کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے کے ایک محقق نے دریافت کیا کہ انسانوں نے زیادہ زرخیز اور منفرد کہانیاں لکھیں۔

اس کے برعکس مصنوعی ذہانت کے نظاموں نے اسی کہانی سے ملتی جلتی کہانیاں لکھیں۔ ان نظاموں نے پہلے سے لکھی کہانی میں محض معمولی تبدیلیاں کیں۔ مصنوعی ذہانت کی تخلیق کردہ کہانیاں گھسے پٹے جملوں سے بھری ہوئی تھیں۔

 یونیورسٹی کے سکول آف انفارمیشن اور شعبہ تاریخ کی محقق نینا بیگوش نے پیر کو انڈپنڈنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تقریباً اسلوب، استعارے کی پیروڈی کی طرح تھا۔ مزاح پیدا کرنے کی ایک کوشش۔ جس میں یہ (تینوں خصوصیات) نہیں تھیں۔ 

’یہ بھی بالکل واضح تھا کہ ان کہانیوں کا کسی معاشرے یا ثقافت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مقامی حوالوں یا انسانی ثقافتوں کی خصوصیت کا کوئی تذکرہ نہیں تھا، جب کہ انسانوں کی لکھی کہانیوں میں یہ عناصر کہیں زیادہ متنوع اور سچ کہوں تو پڑھنے میں کافی دلچسپ تھے۔‘

بیگوش نے انسانوں کی لکھی ہوئی 250 تحریروں کا موازنہ 80 کہانیوں سے کیا جو مصنوعی ذہانت کے ٹولز کے ذریعے تخلیق کی گئیں اور ہر تحریر کی جزیات اور ان کے مجموعی بیانیے کی روانی کا جائزہ لیا۔

انہوں نے ان ٹولز کے خاص طور پر ایسے موضوعات پر بحث کے انداز کا جائزہ لیا جن میں ثقافت، نسل، قومیت اور جنس شامل ہیں۔ ان کی تحقیق کے نتائج بدھ کو جرنل ہیومینیٹیز اینڈ سوشل سائنسز کمیونیکیشنز میں شائع ہوئے۔

انسان کی لکھی کہانیاں ایمازون میکینکل ترک نامی پلیٹ فارم پر کام کرنے والے افراد نے تخلیق کیں جبکہ دیگر کہانیاں اوپن اے آئی کے ماڈلز جی پی ٹی فور اور جی پی ٹی3.5 نے تخلیق کیں۔ اوپن اے آئی کے جوابات کا مقابلہ میٹا کے لاما 3 70 بی کی تخلیقات کے ساتھ بھی کیا گیا۔ ایمازون کے کراؤڈ ورکرز نے جون 2019 میں کہانیاں تحریر کیں جبکہ اوپن اے آئی نے گذشتہ سال مارچ میں کہانیاں تخلیق کیں۔

تمام 330 جوابات کی بنیاد مجسمہ ساز پگمیلین کے افسانے کی بنیاد پر تھی۔ دو ہزار سال پرانی اس کہانی میں رومی شاعر اوویڈ کا ایک مجسمہ ساز اسی مجسمے سے محبت کر بیٹھتا ہے جو اس نے خود تیار کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مصنوعی ذہانت کے ماڈلز اور انسانوں سے کہا گیا کہ وہ ایک کہانی لکھیں جس میں ایک انسان نے ایک مصنوعی انسان تخلیق کیا اور بعد میں اس مصنوعی انسان سے محبت کر لی۔ یا وہ ایک انسان کے بارے میں لکھ سکتے تھے جس نے ایک مصنوعی انسان تخلیق کیا اور پھر ایک مختلف انسان اس مصنوعی انسان سے محبت کر بیٹھا۔ ان موضوعات نے بیگوش کے لیے تحریر کے معیار کا اندازہ لگانا آسان بنایا۔

انسانوں اور اے آئی سسٹمز دونوں نے پگمیلین کے افسانے کی بنیادی تفہیم دکھائی لیکن مصنوعی ذہانت کا اسلوب محدود اور اس میں تبلیغ کا شائبہ تھا۔ یہ کوئی ’معیاری تحریر‘ نہیں تھی۔

انسانوں نے زیادہ تخلیقی انداز میں لکھا جس میں محرومی جیسے عناصر شامل تھے۔ بیگوش نے یہ بھی کہا کہ اے آئی کی تخلیق کردہ کہانیوں زیادہ تر ہم جنس پرست محبت کے موضوعات کو شامل کیا گیا۔ ایک کہانی میں تو ایک سے زیادہ لوگوں کے ساتھ محبت کا ذکر کیا گیا۔

لیکن بیگوش کو اس بات کی فکر نہیں  کہ مصنوعی ذہانت دنیا کے بہترین لکھاریوں کو پیچھے چھوڑ دے گی۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ’مجھے واقعی فکر نہیں۔ کیونکہ ہم انسان سوچنے کی صلاحیت رکھنے والی مخلوق ہیں۔ ہم الفاظ کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ ہمارے اندر لکھنے اور لکھتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی خواہش موجود ہوتی ہے۔ اس لیے میں یہ نہیں سمجتی کہ مصنوعی ذہانت کے ٹولز ان تمام باتوں کی جگہ لے لے گی۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ ٹولز ہماری تحریروں کو شکل دیں گے۔ کم از کم تحریر کے بعض حصوں کو۔ حتیٰ کہ تحلیقی تحریروں کو بھی۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق