بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ میں جمعے کو اقلیتی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے عبوری حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے خلاف جاری مبینہ حملوں اور ہراسانی سے انہیں تحفظ فراہم کرے اور ہندو رہنماؤں پر بغاوت کے مقدمات واپس لے۔
چٹاگانگ کے ایک مرکزی چوک پر تقریباً 30,000 ہندو افراد نے نعرے لگاتے ہوئے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا، جبکہ پولیس اور فوج کے اہلکاروں نے علاقے کی حفاظت کو یقینی بنایا۔
ملک کے دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات ہیں۔
حکومتی تبدیلی کے بعد بڑھتی ہوئی اقلیتی ہراسانی
ہندو برادری کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اگست کے اوائل سے اب تک ہزاروں حملے کیے جا چکے ہیں۔
ان کے مطابق جب وزیراعظم شیخ حسینہ کی سیکولر حکومت کا تختہ الٹا گیا اور وہ ملک چھوڑ کر چلی گئیں، تب سے ہی اقلیتوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اطلاعات کے مطابق، نوبل انعام یافتہ محمد یونس، جو عبوری حکومت کی قیادت کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ ان واقعات کی شدت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیش کی تقریباً 170 ملین آبادی میں آٹھ فیصد ہندو اور 91 فیصد مسلمان ہیں۔ بنگلہ دیش ہندو بدھسٹ کرسچین یونٹی کونسل کے مطابق چار اگست سے اب تک دو ہزار سے زائد حملے ہو چکے ہیں، جبکہ عبوری حکومت امن بحال کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
اقلیتی برادری کا کہنا ہے کہ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد شدت پسند اسلام پسند عناصر کے اثرات میں اضافہ ہوا ہے۔
بین الاقوامی ردعمل
یہ مسئلہ بین الاقوامی سطح پر بھی زیر بحث ہے۔ انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملوں کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دوسری طرف، امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’بنگلہ دیش میں ہندو، عیسائی اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ہونے والے وحشیانہ حملے قابل مذمت ہیں۔‘
انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنے ایک پیغام میں کہا، ’میں بنگلہ دیش میں ہندوؤں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ہونے والی بربریت کی سخت مذمت کرتا ہوں۔‘
مطالبات اور مزید احتجاج
ہندو برادری کے رہنماؤں نے اگست سے ڈھاکہ سمیت ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں۔
ان کے آٹھ اہم مطالبات میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے خصوصی قانون، اقلیتی امور کی وزارت، اور اقلیتوں پر ظلم کرنے والوں کے خلاف ٹربیونل کا قیام شامل ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے اپنی سب سے بڑی مذہبی تقریب، درگا پوجا کے موقعے پر پانچ دن کی تعطیل کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
چٹاگانگ میں ہونے والا جمعہ کا مظاہرہ اس وقت ہنگامی بنیادوں پر منعقد کیا گیا جب 19 ہندو رہنماؤں پر بغاوت کے الزامات عائد کیے گئے، جن میں ممتاز مذہبی رہنما چندن کمار دھر بھی شامل ہیں۔
ان پر الزام ہے کہ 25 اکتوبر کو ہونے والی ایک ریلی میں شرکا نے مبینہ طور پر بنگلہ دیش کے قومی جھنڈے کے ساتھ زعفرانی جھنڈا نصب کیا تھا جسے توہین آمیز عمل قرار دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہندو رہنماؤں نے ان الزامات کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان مقدمات کو 72 گھنٹوں کے اندر واپس لیا جائے۔
دارالحکومت ڈھاکہ میں ہفتہ کو مزید احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔
شیخ حسینہ کی جماعت کے حامی بھی نشانے پر
حسینہ کی جماعت عوامی لیگ اور اس کی اتحادی جماعت جاتیا پارٹی کے حامیوں نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے وہ بھی حملوں کی زد میں ہیں۔
جمعرات کی شب جاتیا پارٹی کے ہیڈکوارٹرز پر حملہ کرکے اسے نذر آتش کر دیا گیا۔
جمعے کو جاتیا پارٹی کے چیئرمین جی ایم قادری نے اپنے حامیوں کے حقوق کے لیے احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہفتے کو قیمتوں میں اضافے اور اپنے رہنماؤں پر لگائے گئے مبینہ جھوٹے الزامات کے خلاف مظاہرہ کریں گے۔
ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس نے جمعے کو اعلان کیا کہ جاتیا پارٹی کے ہیڈکوارٹرز کے قریب کوئی ریلی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس کے بعد جاتیا پارٹی نے پولیس کے احکام کا احترام کرتے ہوئے اپنا احتجاجی مظاہرہ مؤخر کر دیا اور کہا کہ وہ جلد ہی اس کے لیے نئی تاریخ کا اعلان کریں گے۔
پولیس کا یہ فیصلہ ایک طلبہ گروپ کی تنقید کے بعد آیا، جس نے پولیس انتظامیہ کو اجازت دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور احتجاج روکنے کی دھمکی دی۔