بنگلہ دیش: استثنیٰ سکیم سے متاثرین کو انصاف نہ ملنے کا خوف

وزارت داخلہ کے ترجمان فیصل حسن نے کہا کہ اس بغاوت میں شامل طلبہ اور شہریوں کو 15 جولائی سے آٹھ اگست کے درمیان کی گئی کارروائیوں کے لیے قانونی چارہ جوئی، گرفتاری یا ہراسانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

22 اکتوبر 2024 کو ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین کی رہائش گاہ کے باہر طلبہ معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ساتھ ان کی وفاداری کے الزامات پر صدر سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے لگا رہے ہیں (اے ایف پی)

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کا تختہ الٹنے والے طلبہ کے انقلابی احتجاج کے دوران سینکڑوں افراد مارے گئے لیکن محمد یونس کی سرابرہی والی عبوری حکومت کی جانب سے استثنیٰ کی سکیم سے تشدد سے متاثر ہونے والے افراد کو خدشہ ہے کہ یہ پالیسی انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ثابت ہو گی۔

ڈھاکہ کے ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں وینٹی لیٹر پر موجود 16 سالہ شہریار کے اہل خانہ کو خدشہ ہے کہ ان کے بیٹے پر تشدد کرنے والوں کو کبھی بھی مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیوں کہ بغاوت میں حصہ لینے والے مظاہرین کو استغاثہ سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔

کومے میں مبتلا شہریار کی چلتی سانسیں ہی اس بات کی علامت ہے کہ وہ زندہ ہے جن کے والد عبدل نے اے ایف پی کو بتایا: ’میرے بچے نے نہ تو آنکھیں کھولی ہیں اور نہ ہی وہ کبھی بول پایا ہے۔‘

پانچ اگست کو شیخ حسینہ کے ملک سے فرار کے بعد پھوٹ پڑنے والے وسیع پیمانے پر تشدد کے دوران ایک ہجوم کی جانب کیے گئے تشدد سے شہریار کے سر گہری چوٹ لگی تھی جس کے بعد سے وہ کوما میں چلے گئے اور اس دن کے بعد سے ان کے والد شاید ہی کسی رات کو سو پائیں ہوں۔

شیخ حسینہ کے فرار سے قبل مظاہرین کے خلاف مہلک ترین کریک ڈاؤن کے دوران 700 سے زیادہ مظاہرین مارے گئے تھے۔

اس تشدد نے کے نتیجے نے عوامی انتقام کو ہوا دی جنہوں نے ان لوگوں کو نشانہ بنایا جو شیخ حسینہ اور ان کی جماعت عوامی لیگ کے وفادار سمجھے جاتے تھے۔

حکام کا کہنا ہے کہ عوامی ردعمل میں کم از کم 46 پولیس اہلکار مارے گئے جبکہ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی کے بھی کئی ارکان کو مارا گیا اور عمارتوں کو آگ لگا دی گئی۔ دیگر حملے لوٹ مار یا مذہبی منافرت سے محرک تھے۔

ضلع پنچ گڑھ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے عبدل کو خدشہ ہے کہ ان کے بیٹے پر حملہ کرنے والے ذمہ داروں کا احتساب نہیں کیا جائے گا۔

انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ’عین و سالش کیندرا‘ کی رپورٹ کے مطابق پانچ اگست کو حسینہ کی برطرفی کے دن  اور آٹھ اگست کے درمیان بچوں سمیت کم از کم 318 افراد مارے گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بنگلہ دیش ہندو، بدھسٹ، کرسچن یونٹی کونسل نے چار سے 20 اگست تک قتل اور ریپ سمیت دو ہزار سے زیادہ واقعات کی رپورٹ دی۔

سوکمار بسواس نامی اقلیتی رکن نے بتایا کہ انہوں نے اپنے محلے میں جلی ہوئی عمارت کے سامنے چار جلی ہوئی لاشیں دیکھی تھیں جن میں سے تین بچے بھی شامل تھے۔

ہندو اقلیت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ انہیں پانچ اگست کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے خوف کی وجہ سے انصاف نہیں مانگا ہے۔‘

عبوری حکومت کی استثنیٰ سکیم

لیکن نئی حکومت نے مظاہرین کو بڑے پیمانے پر استثنیٰ دے دیا ہے۔

اس سکیم کے تحت نہ صرف انقلاب کے دوران بلکہ حسینہ واجد کے فرار کے بعد کے تین دن کے واقعات میں ملوث افراد بھی شامل ہیں۔

وزارت داخلہ کے ترجمان فیصل حسن نے 14 اکتوبر کے حکم نامے کے حوالے سے کہا: ’ایک مطلق العنان اور فاشسٹ حکومت کے خاتمے کے ساتھ ایک ایسے بنگلہ دیش کی طرف ایک نیا سفر شروع ہو گیا ہے جہاں کسی سے امتیاز نہیں برتا جائے گا۔‘

انہوں نے استثنیٰ سکیم کے بارے میں کہا: ’اس بغاوت کو کامیاب بنانے والے طلبہ اور شہریوں کو 15 جولائی سے آٹھ اگست کے درمیان کی گئی کارروائیوں کے لیے قانونی چارہ جوئی، گرفتاری یا ہراسانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘

اس کے برعکس پولیس سابق دور حکومت کی تفتیش میں مصروف ہے اور حسینہ واجد کے درجنوں ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

77 سالہ شیخ حسینہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں جن کے آخری ٹھکانے کی تصدیق انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے قریب ایک فوجی ایئربیس تھی۔

شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور حکومت میں بھی بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رپورٹ ہوئیں، جن میں ان کے سیاسی مخالفین کی بڑے پیمانے پر حراست اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا