بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں نے جمعرات کی رات ملک کی معزول وزیر اعظم حسینہ واجد کی حامی جماعت کے ہیڈکوارٹر کو آگ لگا دی تاہم کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں واقع جاتیہ پارٹی کے دفاتر پر حملے کی فوری طور پر کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ ٹی وی چینلز اور دیگر میڈیا ذرائع نے بتایا کہ حملہ آور ڈھاکہ کے علاقے بجوئی نگر میں پارٹی کے ہیڈکوارٹر میں گھس گئے جہاں ان کا پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ تصادم ہوا اور بالآخر انہوں نے عمارت کو آگ لگا دی۔
نقصان کی نوعیت کا فوری طور پر علم نہیں ہو سکا۔ آگ بجھانے والا عملہ فوری طور پر موقع پر پہنچ گیا۔ فائر سروس اور شہری دفاع کے اہلکار راشد بن خالد، جنہوں نے ٹیلی فون پر ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کی، کے پاس مزید تفصیلات نہیں تھیں۔
جاتیہ پارٹی بنگلادیش کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے اور اسے 1980 کی دہائی میں سابق فوجی حکمران ایچ ایم ارشاد نے قائم کیا۔
حملے کے دوران سرکردہ طالب علم رہنما، جو اس احتجاجی تحریک کا حصہ تھے جو اگست میں حسینہ واجد کی اقتدار سے علیحدگی کا باعث بنا، نے کہا کہ جتیہ پارٹی کو حسینہ واجد کی حکومت کی حمایت کرنے پر ’تباہ‘ کر دینا چاہیے۔
طالب علم رہنما حسنات عبداللہ نے فیس بک پوسٹ میں جاتیہ پارٹی کو ’قومی غدار‘ قرار دیا۔
عبداللہ امتیازی سلوک کے خلاف اس طلبہ تحریک سے تعلق رکھتے ہیں، جو جولائی ہونے والے احتجاج کے سلسلے میں پیش پیش تھی۔
پارٹی کے سکریٹری جنرل مجیب الحق چنو نے حملے کا الزام طلبہ پر لگایا۔ انہوں نے کہا: ’لوگ دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ یہ سب سوشل میڈیا پر براہِ راست دیکھا جا رہا ہے۔ وہ یہ سب لوگوں کے سامنے کھلے عام کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے طلبہ پر زور دیاکہ وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں جمع ہوں اور جاتیہ پارٹی کے ہیڈکوارٹر کی جانب مارچ کریں۔
حسینہ واجد کی بنگلہ دیش عوامی لیگ نے 2009 سے ملک پر 15 سال حکومت کی۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ جاتیہ پارٹی نے حسینہ کے اقتدار کے جمہوری ہونے کے تاثر دینے میں کردار ادا کیا حالاں کہ دیگر بڑی سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔
پانچ اگست کو حسینہ واجد اس وقت ملک چھوڑ کر انڈیا فرار ہو گئیں، جب طلبہ کے مظاہرے حکومت مخالف احتجاجی تحریک میں تبدیل ہو گئے۔ اس انتشار کے دوران سینکڑوں طلبہ، سکیورٹی اہلکار اور دوسرے لوگ جان سے گئے۔
بعد ازاں مزید سینکڑوں افراد، بشمول حسینہ واجد کے حامی، انتقامی حملوں یا ہجوم کے ہاتھوں تشدد کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ان کے خلاف اب جولائی اور اگست میں مارے گئے لوگوں کی موت کے الزام میں وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔
بنگلہ دیشی نوبیل انعام یافتہ محمد یونس نے اگست میں ملک کی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر عہدہ سنبھالا۔ ان کی حکومت کو طلبہ اور ملک کی بااثر فوج کی حمایت حاصل ہے
تاہم ان کی حکومت کو امن و امان بحال کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
© The Independent