انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے انڈیا کے مرکزی حزب اختلاف اور کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی سے اپنے شوہر کی زندگی بچانے کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔
مشعال ملک نے اپنے خط میں، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، راہل گاندھی پر زور دیا ہے کہ وہ ان کے شوہر کا معاملہ فوری طور پر پارلیمان میں اٹھائیں اور ان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صحت کے باعث فوری طور پر ان کی جیل سے آئی سی یو منتقلی کے لیے مودی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
یاسین ملک نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں، جہاں وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اوراپنی غیر قانونی گرفتاری اور علاج معالجے کی سہولت کی عدم دستیابی کے خلاف بطور احتجاج دو نومبر سے مسلسل بھوک ہڑتال پر ہیں۔
مشعال ملک نے کانگریس رہنما سے یاسین ملک کی جان بچانے اوران کا ’عدالتی قتل‘ رکوانے کے لیے فوری مداخلت کی اپیل کی۔
مشعال ملک نے لکھا: ’میرے شوہر تین دہائیوں پرانے غداری کیس میں منصفانہ ٹرائل کا انتظار کر رہے ہیں، جس میں این آئی اے نے ان کے خلاف موت کی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کی صحت پر قید کے اثرات پبلک انفارمیشن کا معاملہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ انہیں غیر انسانی حالات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو تمام دستیاب قانونی ریکارڈوں سے ثابت ہے۔‘
1988 میں امریکہ میں پیدا ہونے والی مشعال ملک، سابق نگران وزیر برائے انسانی حقوق رہ چکی ہیں۔ وہ ایک آرٹسٹ، پینٹر، جدوجہدِ آزادی کے لیے سرگرم خاتون اور امن کی سفیر ہیں۔
چار صفحات پر مبنی انگریزی زبان میں تحریر اس خط میں مشعال ملک نے مزید لکھا کہ ’انہیں مناسب علاج سے محروم رکھا جا رہا ہے اور ایسی دوائیں دی جارہی ہیں، جو ان کی صحت کے لیے مضر ہیں۔‘
یاسین ملک کی اہلیہ نے کہا کہ ان کے شوہر کی بگڑتی ہوئی صحت اور غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی متعدد امراض میں مبتلا ہیں اور انہیں علاج معالجے کی سہولت سے مسلسل محروم رکھا جارہا ہے۔
بقول مشعال ملک: ’ان کی ناساز طبعیت اور بھوک ہڑتال ان کی صحت کو مزید بری طرح متاثر کرے گی اور اس شخص کی زندگی کو خطرے میں ڈالے گی، جس نے مسلح جدوجہد کو ترک کرنے کے بعد عدم تشدد کے تصور پر یقین کرنے کا انتخاب کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشعال ملک نے کہا کہ یاسین ملک عدم تشدد کی علامت اور پرامن مزاحمت کے حامی ہیں، تاہم اس کے باوجود انہیں تہاڑ جیل میں طویل عرصے سے قید رکھا گیا ہے۔
انہوں نے یاسین ملک کو فوری طور پر علاج کی سہولت اورزندگی بچانے والی ادویات کی فراہمی کے علاوہ ان کے خلاف درج جھوٹے مقدمے کے منصفانہ ٹرائل کا حق دینے پر بھی زوردیا۔
انہوں نے لکھا: ’میں آپ کی توجہ سری نگر کے ایک اخبار میں شائع ہونے والی تحریر کی طرف بھی مبذول کروانا چاہتی ہوں جس میں کہا گیا ہے کہ وادی کے کشمیری پنڈتوں کا ایک گروپ رواں ہفتے جے کے ایل ایف کے احتجاج میں شامل ہوا اور یاسین ملک کی رہائی کے نعرے لگاتے ہوئے لال چوک کی طرف مارچ کیا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یاسین ’کشمیریت‘ کی روح کے حقیقی نمائندے ہیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’یہ ان کا بے داغ عدم تشدد کا نظریہ تھا، جس نے اُس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو مجبور کیا کہ وہ انہیں 17 فروری 2006 کو انڈین حکومت اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے درمیان بات چیت شروع کرنے کے لیے مدعو کریں۔‘
مشعال ملک نے لکھا کہ ’2019 سے یعنی آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد یاسین ملک کو بی جے پی حکومت تمام ناقابل تصور طریقوں سے نشانہ بنا رہی ہے۔ ان پر 35 سال پرانے کیس میں انڈیا کے خلاف جنگ چھیڑنے کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر انڈیا اس راستے پر چلنے کا انتخاب کرتا ہے تو آپ سب جانتے ہیں کہ اس سے کشمیری عوام کی نظروں میں ریاست کا اعتماد ختم ہونے اور عوام کی طرف سے دوبارہ کبھی یقین نہ کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘