پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع اپر کرم کے مرکزی شہر پاڑہ چنار میں انجمن حسینیہ پاڑہ چنار نے گذشتہ 22 دنوں سے مرکزی شاہراہ کی بندش کے خلاف جمعرات کو پیدل مارچ شروع کر دیا۔
پاڑہ چنار میں اہل تشیع کی نمائندہ تنظیم کے علاقہ مشران کے ایک اجلاس میں گذشتہ روز اس مارچ کا اعلان کیا گیا تھا۔ منتظمین کے مطابق مارچ تب تک جاری رہے گا جب تک مسئلے کا مستقل حل نہیں نکل آتا۔
مارچ کے دوران کسی تشدد کے خدشے کے پیش نظر علاقے میں سکیورٹی بڑھائی گئی ہے۔
ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاویداللہ محسود کے مطابق مارچ اور کرم کے معاملے پر جرگہ جاری ہے اور ’ہم کوشش کریں گے کہ اس کا کچھ حل نکالا جا سکے۔‘
انہوں نے کہا، ‘جو ممکن ہے، وہ ہم کریں گے تاکہ سکیورٹی کسی کی بھی کمپرومائز نہ ہو۔’
مقامی صحافی علی افضل افضال نے بتایا کہ مارچ میں عوام کی بڑی تعداد شامل ہے اور علاقے میں تمام بازار اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔
تنظیم کے جنرل سیکریٹری جلال حسین بنگش نے گذشتہ روز مارچ کے اعلان کے دوران خطاب میں کہا ’گذشتہ دن تک ہم مفاہمت سے کام لے رہے تھے، لیکن اب ہم مختلف سوچ سے آئیں گے اور اس مسئلے کا حل نکالیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ٹل پاڑہ چنار روڈ کی بندش کی وجہ سے ’ہم نے 1200 سے زائد بیرون ملک مقیم پاڑہ چنار کے رہائشییوں کو واپس آنے میں مدد کی۔ ہم نے مختلف دفاتر کو ان افراد کو واپس لانے کے لیے منتیں کیں لیکن اب مزید ایسا نہیں کر سکتے۔‘
جلال حسین بنگش نے بتایا، ’آج (جمعرات) کو آپ سے لوگوں نے نکلنا ہوگا اور راستے میں دیگر علاقوں کے لوگ مارچ میں شریک ہوسکتے ہیں۔ ‘
ان کے مطابق یہ مارچ پیدل اور غیر مسلح ہو گا اور جہاں پر انہیں اس مسئلے کے حل کے حوالے سے تسلی بخش جواب دیا جائے گا وہاں وہ پرامن طریقے سے منتشر ہو جائیں گے، لیکن جب تک حل نہیں ہوتا تو اسی روڈ پر مارچ جاری رہے گا۔
انہوں نے اپنے مطالبے کے حوالے سے بتایا کہ ٹل پاڑہ چنار روڈ کو تمام لوگوں کے لیے محفوظ بنا کر کھول دیا جائے اور ’اگر ایک سال تک اسے بند رہیں گے تو ایک سال مارچ جاری ہوگا۔‘
ان کے مطابق مارچ کے دوران روڈ ہر قسم ٹریفک کے لیے بند رہے گا، لہٰذا سرکاری ادارے روڈ کو استعمال کرنے سے گریز کریں کیونکہ ان کی پالیسی اب دوٹوک اور موقف سخت ہے۔
’اب ہم کسی قسم مذاکراتی کمیٹی کا حصہ نہیں ہوں گے، بلکہ ہمیں تحریری طور پر مسئلے کے حل کا فیصلہ چاہیے ہو گا۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بھی آج بند کیے جائے گے، کیونکہ وہ تعلیم تب حاصل کریں گے جب روڈ کھول دیا جائے۔
ضلعی اتنظامیہ کے مطابق ضلع کرم گذشتہ چند ماہ سے زمینی تنازعات کی لپیٹ میں ہے اور یہ تنازعات فرقہ ورانہ شکل اختیار کرتے ہیں جس سے بات کئی دنوں تک ایک دوسرے کے ساتھ جھڑپوں تک پہنچ جاتی ہے۔
جھڑپوں میں فریقین کے متعدد افراد مارے جا چکے ہیں اور زمینی راستے اور سڑکیں بند کی جاتی ہیں۔
اس کے بعد جرگوں کی مدد سے جھڑپوں کو روکا جاتا ہے، لیکن کچھ عرصے بعد دوبارہ یہی تنازع شروع ہوجاتا ہے۔
حالیہ تنازع اور اس کے بعد پاڑہ چنار کو جانے والی مرکزی شاہراہ بند تب ہوئی جب ضلع کرم کے علاقے مقبل کا ایک مقامی شخص اپنے خاندان سمیت گاڑی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بن گیا جس میں خواتین سمیت بچے بھی مارے گئے۔
اس واقعے میں پولیس کے مطابق 14 افراد جان سے گئے تھے، جن میں تین خواتین اور دو بچے بھی شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکیورٹی فورسز کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں دو حملہ آور مارے گئے تھے۔
واقعے کے بعد ضلع کرم میں حالات کی کشیدہ ہونے کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ نے پاڑہ چنار کو جانے والی مرکزی شاہراہ بند کر دی، جو 22 دن گزرنے کے بعد بھی بدستور بند ہے جس سے علاقے کے لوگوں کو مشکلات ہیں۔
ان تنازعات کے حوالے سے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے 13 اکتوبر کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ضلع کرم کا مسئلہ فرقہ ورانہ نہیں بلکہ زمینی تنازع ہے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے اسمبلی کی ایک کمیٹی بنائی جائے گی تاکہ اس کا پرامن حل نکالا جا سکے۔
ضلع کرم میں صوبائی محکمہ داخلہ کے مطابق مجموعی طور پر آٹھ بڑے زمینی تنازعات چل رہے ہیں اور یہی تنازعات وقتاً فوقتاً جھڑپوں میں بدل جاتے ہیں۔
طوری بنگش قبائل کے ہزاروں مظاہرین گذشتہ روز لوئر کرم کے علاقہ بگن اوچت میں قتل ہونے والے دو افراد کی میتوں کے ہمراہ جلوس کی شکل میں پریس کلب پاڑہ چنار پہنچے تھے۔
اس موقعے پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے رہنما جلال بنگش، علامہ تجمل حسین اور عنایت طوری نے کہا کہ وہ آئے روز دہشت گردی کے واقعات اور طویل عرصے سے سڑکوں کی بندش سے تنگ آ گئے ہیں اور بڑی آبادی اپنے علاقے میں محصور ہوکر رہ گئی ہے اور کوئی ان کی فریاد سننے کو تیار نہیں۔
’مجبوراً راستے کھولنے کے لیے اپنے سروں پر کفن باندھ کر پیدل مارچ کریں گے۔‘