کرم جھڑپوں میں 31 اموات، حکومت مستقل حل میں ناکام کیوں؟

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں ’زمینی تنازعے‘ پر دو فریقین کے مابین گذشتہ چھ روز سے جاری لڑائی میں اب تک ہسپتال اور پولیس ذرائع کے مطابق 31 اموات ہو چکی ہیں اور 70 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

25 ستمبر 2024 کو لوئر کرم میں پولیس ایک مورچے میں جا کر فائر بندی کے لیے کوشش کر رہی ہے (ضلعی انتظامیہ)

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں ’زمینی تنازعے‘ پر دو فریقین کے مابین گذشتہ چھ روز سے جاری لڑائی میں اب تک ہسپتال اور پولیس ذرائع کے مطابق 31 اموات ہو چکی ہیں اور 70 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

اپر کرم کے مرکزی شہر پاڑہ چنار ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر سید میر حسن جان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جھڑپوں سے 15 اموات ہوئی ہیں اور 41 زائد زخمی ہسپتال لائے گئے ہیں۔

اسی طرح لوئر کرم میں پولیس کنٹرول روم کے مطابق اب تک لڑائی میں 16 افراد کی موت اور 31 زخمی ہوئے ہیں۔

پولیس کنٹرول کے اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لڑائی اب دیگر علاقوں تک پہنچ گئی ہے اور ابھی اس کے رکنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا: ‘فریقین ایک دوسرے کے مورچوں پر قبضہ کرکے اسلحہ لے کر جاتے ہیں، تاہم ابھی تک کسی گاؤں پر قبضے کی خبروں میں صداقت نہیں ہے۔‘

تنازع شروع کیسے ہوا؟

ضلع کرم کی تحصیل اپر کرم کے علاقے پاڑہ چنار میں واقع گاؤں بوشہرہ اور احمد زئی کے لوگوں میں چھ دن قبل زمینی تنازع شروع ہوا اور دونوں فریقین ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہو گئے۔

احمدزئی گاؤں اور بوشہرہ گاؤں کے لوگ ایک دوسرے پر ان کی زمینوں میں مورچے بنانے کا الزام عائد کرتے ہیں اور اسی سے تنازعے کا آغاز ہوا، جس کے دوران فریقین کی جانب سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا گیا۔

 اب یہ لڑائی ضلعے کے دیگر علاقوں تک پہنچ چکی ہے اور بوشہرہ کے بعد لوئر کرم تحصیل کے گاؤں بالش خیل اور خار کلے میں بھی جھڑپیں شروع ہو گئیں۔

ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید محسود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’لڑائی کو روکنے اور فائر بندی کے لیے علاقہ مشران کی مدد سے کوششیں جاری ہیں جبکہ سکیورٹی اہلکار بھی تیار ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سکیورٹی اہلکاروں کو علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے تاکہ جھڑپوں کو روکا جا سکے۔‘

انجمن حسینیہ پاڑہ چنار کے سربراہ جلال حسین بنگش نے گذشتہ روز پاڑہ چنار پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ’یہ ذاتی زمینی تنازع ہے اور اسے دیگر علاقوں تک پھیلایا جاتا ہے۔‘

جلال حسین نے بتایا کہ ’اس سے دونوں جانب جانی نقصان ہوتا ہے۔‘

 انہوں نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’ذاتی زمینی تنازعات کو دیگر علاقوں اور اقوام تک نہیں پھیلانا چاہیے۔‘

دوسری جانب انجمن فاروقیہ کے صدر منیر بنگش نے حالیہ واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ ’40 سال سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ تباہی، بغض، نفرت کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ دونوں جانب چند عناصر اب مشران کی باتیں بھی نہیں سنتے اور اسی وجہ سے اب ہمیں ان عناصر کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔‘

منیر بنگش کا کہنا تھا کہ ’چند عناصر جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ بعض جگہوں پر ہم نے فائر بندی کی ہے لیکن بعض عناصر کے لیے شاید جنگ میں فائدہ ہے اور وہ امن کے خواہاں نہیں ہیں۔‘

تقریباً دو ماہ قبل بھی بوشہرہ گاؤں سے شروع ہونے والی لڑائی ضلعے کے دیگر علاقوں تک پھیل گئی تھی، جس میں کم از کم 42 افراد جان سے گئے تھے۔

اس کے بعد ایک گرینڈ جرگہ بنایا گیا تھا اور جرگے کی کوششوں سے فائر بندی کا اعلان کیا گیا، لیکن اب دوبارہ وہی صورت حال بن گئی ہے۔

بوشہرہ گاؤں اور زمینی تنازع

حالیہ کشیدگی سمیت ماضی میں ہونے والے زمینی تنازعات پر جھڑپوں کا آغاز عموماً بوشہرہ نامی گاؤں سے ہوتا ہے، جو ضلع کے دیگر علاقوں تک پھیل جاتا ہے۔

یہ گاؤں بظاہر خیبر پختونخوا کے کسی عام پہاڑی علاقے جیسا ہی ہے لیکن یہاں واقع زمین کا ایک ٹکڑا ایسا ہے، جس پر تنازعے نے اب تک درجنوں افراد کی جان لے لی ہے۔

30 جریب یعنی اندازاً 100 کنال زمین کی ملکیت کا تنازع بوشہرہ کے دو دیہات میں مقیم قبائل کے درمیان ہے لیکن زمینی تنازع لڑائی کے بعد جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کی سرحد پر واقع ہے، اس سے قبل ضلع کرم میں 2007 میں شروع ہونے والا ایک بڑا تنازع کئی سالوں تک جاری رہا تھا اور 2011 میں قبائلی عمائدین کے جرگے کی مدد سے اسے ختم کیا گیا تھا۔

حکومت کیا کر رہی ہے؟

ضلع کرم میں حالیہ لڑائی کوئی نئی نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی زمینی تنازعات سے لڑائیاں شروع ہوکر فرقہ وارانہ جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہیں لیکن حکومت کئی دہائیوں سے جاری زمینی تنازعات حل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسٹی ٹیوٹ فار دی سٹڈیز آف وار کی جانب سے شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق ضلع کرم میں فرقہ ورانہ فسادات کی وجہ سے2007  سے 2011 تک لڑائی میں دو ہزار سے زیادہ لوگ جان سے جا چکے ہیں۔

کرم میں حالیہ لڑائی کو روکنے کے لیے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی ہدایت پر کمشنر کوہاٹ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے اور جرگے کی مدد سے معاملے کے مستقل حل کے لیے اقدمات اٹھانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

محکمہ داخلہ کی جانب سے کمشنر کوہاٹ کو بھیجے گئے مراسلے (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں لکھا گیا ہے کہ علاقہ مشران، منتخب اراکین اسمبلی، سکیورٹی فورسز کے افسران اور بلدیاتی نمائندوں پر شامل ایک گرینڈ جرگہ تشکیل دیا جائے۔

مراسلے کے مطابق: ’جرگے کی مدد سے دونوں فریقین کے مطالبات سامنے رکھ کر صوبائی سطح پر اس معاملے کو دیکھنا چاہیے تاکہ اس کا حل نکالا جا سکے۔‘

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے علاقہ مشران، اراکین اسمبلی اور سکیورٹی فورسز کے افسران پر مشتمل جرگے مختلف مقامات پر فائر بندی کی کوششیں کر رہا ہے، لیکن اب تک یہ کوششیں ناکام رہی ہیں۔

حکومت معاملے کو حل کرنے میں ناکام کیوں؟

مسئلے کو حل کرنے میں حکومتی ناکامی کی وجوہات کے حوالے سے ضلع کرم سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی اور جرگے کے رکن ساجد حسین طوری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بعض عناصر فائر بندی ہونے کے باوجود حالات ٹھیک ہونے نہیں دیتے۔

انہوں نے بتایا کہ زمینی تنازعات پانچ جگہوں پر موجود ہیں لیکن زمینی تنازعے سے شروع ہوکر یہ مسئلہ فرقہ وارانہ فسادات کی طرف لے جایا جاتا ہے اور حکومت مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

ساجد طوری نے بتایا: ’ایک ہفتے سے ہم وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے وقت لینے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ علاقہ مشران اور جرگے کے لوگ ان سے مل کر مسئلے کے حل پر بات کریں لیکن وہ وقت ہی نہیں دیتے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ معاملہ مزید گھمبیر ہوتا جا رہا ہے اور حکومت کو اس پر سنجیدگی سے سوچ کر مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان