پاڑہ چنار کے ہادی رضا، جنہوں نے ’بندوق کی بجائے کیمرہ اٹھا لیا‘

نوجوان فوٹوگرافر ہادی کے مطابق پاڑہ چنار کے خوبصورت سیاحتی مقامات، کلچر، خوراک، روایات، اور بھائی چارے کی کوئی مثال نہیں ہے، لیکن میڈیا حقیقت کے برعکس کے اسے ایک خطرناک اور جنگ زدہ علاقہ دکھاتا ہے۔

مسلکی فسادات کے دوران بندوق کے بجائے کیمرہ اٹھا کر دنیا کو پاڑہ چنار کا ’اصل چہرہ‘ یعنی سیاحتی مقامات دکھانے والے نوجوان 25 سالہ ہادی رضا ہیں۔

ہادی رضا نے کم وسائل میں بہت کچھ کیا ہے۔ انہیں نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی افراد سے بھی تعریف ملی ہے۔ اپر کرم سے تعلق رکھنے والے ہادی رضا نے کہا کہ انہوں نے 2018 سے یہ کام شروع کیا۔

’یہاں کے خوبصورت سیاحتی مقامات، کلچر، خوراک، روایات، اور بھائی چارے کی کوئی مثال نہیں ہے، لیکن مین سٹریم اور سوشل میڈیا کے ذریعے پاڑہ چنار کو ایک خطرناک اور جنگ زدہ علاقہ دکھایا جا رہا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔‘

’یہاں بے مثال سیاحتی مقامات موجود ہیں، جن میں سنٹر کرم، مورغانوں، باغی مجنون، ملانہ ڈیم، لقمان خیل وغیرہ شامل ہیں، لیکن بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔‘

’اب آہستہ آہستہ نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس مشن میں میرے رشتے داروں اور دوستوں نے میرا ساتھ دیا اور الحمدللہ اب بہت سے ملکی اور غیر ملکی یہاں آنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایک تصویر وائرل ہونے کے بعد رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہادی رضا کے مطابق، حکومت خیبرپختونخوا کے محکمہ سیاحت کی جانب سے انہیں بیسٹ فوٹوگرافر اور کنٹینٹ کری ایٹر کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔

مزمل حسین نے مزید کہا کہ ’پاڑہ چنار میں گزشتہ 50 یا 55 سالوں سے مسلکی فسادات کے باعث ہزاروں خاندان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ لوگ یہاں آنا چاہتے ہیں اور مختلف سیاحتی مقامات دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن آنے سے ڈرتے ہیں۔ اگر حکومت دلچسپی لے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاڑہ چنار کے مختلف علاقے دنیا کے خوبصورت ترین علاقوں سے زیادہ خوبصورت ہیں۔‘

پاڑہ چنار پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے مغرب کی طرف 574 کلومیٹر کے فاصلے پر افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ یہاں اپر کرم، لوئر کرم، اور سنٹرل کرم سیاحتی مقامات سے مالا مال ہیں۔

پاڑہ چنار کا نام اپر کرم کے چنار کے درختوں کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔ روایت ہے کہ ان درختوں کے سائے میں بیٹھ کر مشران جرگوں میں مسائل حل کرتے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان