افغان کرکٹر فِروزہ امیری نے کہا کہ ان کی ٹیم جب جمعرات کو آسٹریلیا میں ایک نمائشی میچ کے لیے تین سال سے زائد عرصے بعد دوبارہ اکٹھی ہو گی تو وہ ’افغانستان کی اُن لاکھوں خواتین کی نمائندگی کرے گی جو اپنے حقوق سے محروم ہیں۔‘
افغانستان ویمنز ایلون ملبورن کے جنکشن اوول گراؤنڈ پر کرکٹ وِد آؤٹ بارڈرز ایلون کے خلاف میچ کھیلے گی۔
اس میچ میں وہ 21 خواتین کھلاڑی جمع ہوں گی جن کا افغانستان کرکٹ بورڈ (اے بی سی) کے ساتھ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے معاہدہ تھا۔
افغانستان سے فرار ہونے والی یہ خواتین کرکٹرز، جن پر اپنے ملک میں کھیلنے پر پابندی ہے، اس وقت کانبرا اور ملبورن میں مقیم ہیں اور مقامی مقابلوں میں مختلف کلب ٹیموں کے لیے کھیل رہی ہیں۔
امیری اور ناہیدہ سپان، جو افغانستان ویمنز ایلون کی کپتان ہوں گی، نے خواتین کے کھیل کو فروغ دینے میں آسٹریلین حکومت اور کرکٹ آسٹریلیا کے تعاون پر شکریہ ادا کیا۔
امیری نے اس ہفتے کہا: ’ہمارے لیے تین سال بعد جمع ہونا بہت خاص ہے، اپنے وطن افغانستان میں سب کچھ کھونے اور چھوڑنے کے بعد دوبارہ اکٹھے ہونا۔‘
امیری کو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے وطن سے فرار ہونا پڑا۔ وہ اور ان کا خاندان پہلے پاکستان گیا اور پھر آسٹریلیا منتقل ہو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپان نے کہا: ’میں ان سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے ہماری مدد کی۔ آپ کی حمایت ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ ہم صرف ایک ٹیم نہیں بنا رہے، ہم تبدیلی اور بہتری کی ایک تحریک بنا رہے ہیں۔
’یہ افغان خواتین کے لیے ایک بہت ہی تاریخی لمحہ ہے۔ یہ میچ افغان خواتین کے لیے تعلیم، کھیل اور ہمارے مستقبل کے دروازے کھول سکتا ہے۔‘
سپان نے 2023 میں بی بی سی کو بتایا کہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کے خاندان کو حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے دھمکیاں موصول ہوئیں۔ ان دھمکیوں میں کہا گیا: ’اگر ہم نے تمہیں ڈھونڈ لیا تو ہم تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔‘
کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹو نک ہاکلی نے کھلاڑیوں کی جرات کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ جب انہیں نمائشی میچ کے لیے ان کی ٹیم کی شرٹس دی گئیں، تو وہ ایک بہت ہی پرجوش لمحہ تھا۔
ہاکلی نے کہا: ’جب انہیں پہلی بار ان کی شرٹس دی گئیں جن پر ان کے نام اور نمبر تھے، تو آپ دیکھ سکتے تھے کہ ان کے لیے یہ کتنی اہمیت رکھتا ہے، میں ان کی جرات اور کھیل کے لیے محبت سے متاثر ہوں۔‘
ہاکلی نے کہا کہ کرکٹ آسٹریلیا عالمی سطح پر تبدیلی کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (ICC) کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ’مؤثر طور پر حمایت‘ جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ جمعرات کا میچ ایک اہم پہلا قدم ہے۔
ہاکلی نے کہا: ’یہ میچ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ دنیا کے کچھ حصوں میں ہر عورت اور لڑکی کو کھیلنے کا موقع نہیں ملتا، ہم آئی سی سی سے بات چیت جاری رکھیں گے اور افغانستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ بھی رابطے میں رہیں گے۔
’یہ ایک پیچیدہ صورت حال ہے۔ یہ کرکٹ سے کہیں بڑی بات ہے۔‘
طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں کرکٹ بورڈ اپنی خواتین کی قومی ٹیم تشکیل نہیں دے سکتا کیونکہ ملک کے قوانین خواتین کو کھیلنے، تعلیم حاصل کرنے اور طبی تعلیم کے حق سے محروم کرتے ہیں، جس پر عالمی تنظیموں بشمول انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے تنقید کی ہے۔
افغانستان آئی سی سی کا مکمل رکن ہے اور اس رکنیت کی ایک شرط یہ ہے کہ اس کی خواتین کی ٹیم ہونی چاہیے۔
انگلینڈ اور آسٹریلیا افغانستان کے خلاف دو طرفہ سیریز میں شرکت سے انکار کر چکے ہیں، لیکن وہ آئی سی سی ایونٹس میں افغانستان کے خلاف کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جیسے کہ اگلے ماہ پاکستان میں ہونے والا چیمپئنز ٹرافی عالمی ایونٹ۔
انگلینڈ کے کرکٹ کپتان جوس بٹلر نے گذشتہ ہفتے کہا کہ جب چیمپئنز ٹرافی میں ان کی ٹیم کا میچ 26 فروری کو لاہور میں ہو تو انہیں افغانستان کے مردوں کی ٹیم کے خلاف میچ کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے۔
تاہم جنوبی افریقہ کے وزیر کھیل نے اپنے ملک کی ٹیم سے کہا کہ وہ چیمپئنز ٹرافی میں افغانستان کے خلاف اپنے میچ کا بائیکاٹ کریں۔
جب ہاکلی سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آسٹریلیا افغانستان کے خلاف آئی سی سی ایونٹ میں مردوں کا میچ کھیلنے کے لیے تیار ہے، لیکن دو طرفہ سیریز کیوں نہیں، تو انہوں نے کہا کہ اپنے تمام طے شدہ میچز کھیلنا کرکٹ آسٹریلیا کی ’ذمہ داری‘ ہے۔
ہاکلی نے کہا: ’ہم واقعی ہر ممکن طریقے سے فرق لانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم دیگر آئی سی سی ایونٹس میں افغانستان کے خلاف کھیل چکے ہیں۔ آپ کو کہیں نہ کہیں ایک حد طے کرنی ہوتی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ہم نے اپنی پوزیشن بہت واضح طور پر واضح کر دی ہے۔
طالبان کے زیر اقتدار حکومت کے تحت نرسنگ اور مڈوائفز کی تربیتی اداروں کو بند کرنے کے بعد افغانستان کی مردوں کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی محمد نبی اور رشید خان نے خواتین کی تعلیم کی حمایت میں سوشل میڈیا پر پیغامات پوسٹ کیے ہیں۔
ہاکلی نے کہا انہیں امید ہے کہ جمعرات کا میچ، جس کے فارمیٹ کا اعلان نہیں کیا گیا، ایک سالانہ ایونٹ بن جائے گا اور ’بہت بحث و مباحثہ شروع ہو گا۔‘
ہاکلی نے کہا:’حقیقی تبدیلی کی تحریک کے لیے آپ کو ایسے لمحے چاہییں۔ پہلا قدم آگاہی ہے، امید ہے کہ یہ میچ صرف آگاہی پیدا کرے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ امید کی ایک اصل کرن ہے۔‘
© The Independent