قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر ماجد بن محمد الانصاری نے دوحہ میں حماس کے دفتر کے متعلق میڈیا رپورٹس کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ قطر میں حماس کے دفتر کا بنیادی مقصد متعلقہ فریقوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بننا ہے اور اس چینل نے پہلے مراحل میں فائر بندی کے حصول میں کردار ادا کیا اور گذشتہ سال نومبر میں خواتین، بچوں اور قیدیوں کے تبادلے سے پہلے علاقے میں امن برقرار رکھنے میں بھی مدد کی ہے۔
قطر کے سرکاری خبر رساں ادارے کیو این اے کے مطابق ترجمان ے اس تناظر میں سرکاری ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈاکٹر ماجد بن محمد الانصاری نے کہا کہ غزہ میں فائر بندی کے حوالے سے قطر کی ثالثی سے دستبرداری کے بارے میں میڈیا رپورٹس درست نہیں ہیں۔
قطر نے 10 روز قبل معاہدے تک پہنچنے کی آخری کوششوں کے دوران فریقین کو مطلع کیا تھا کہ اگر اس مرحلے میں کوئی معاہدہ نہ ہوا تو وہ حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کی کوششوں کو روک دے گا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ قطر ان کوششوں کو اپنے شراکت داروں کے ساتھ اس وقت دوبارہ شروع کرے گا جب فریقین اس بربریت کو ختم کرنے اور پٹی میں تباہ کن انسانی حالات کی وجہ سے شہریوں کی جاری تکالیف کے خاتمے کی سنجیدہ خواہش کا مظاہرہ کریں گے۔
اس تناظر میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ریاست قطر تنازعے کے خاتمے اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے ہر ممکن نیک کوششوں میں سب سے آگے ہوگی۔
اس سے قبل معربی خبر رساں اداروں نے خبر دی تھی کہ قطر نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خاتمے اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے اپنی ثالث کی کوششیں اس وقت تک معطل کر دی ہیں جب تک حماس اور اسرائیل مذاکرات میں ’سنجیدگی‘ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
یہ خلیجی امارات کئی ماہ کی طویل سفارت کاری میں شریک ہے جس کا مقصد گذشتہ سال سات اکتوبر کے بعد شروع ہونے والی غزہ پر اسرائیلی جنگ کو ختم کرنا ہے۔
لیکن قاہرہ اور واشنگٹن کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات صرف نومبر 2023 میں ایک ہفتے کی فائر بندی ہی کروا سکے تھے اور اس کے بعد سے بار بار مسائل پیدا ہوتے رہے ہیں۔
کسی معاہدے پر نہ پہنچ سکنے کا الزام ہر فریق نے دوسرے پر لگایا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل ایک سفارتی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ’قطریوں نے اسرائیل اور حماس دونوں کو آگاہ کیا ہے کہ جب تک فریقین خلوص نیت کے ساتھ معاہدے پر بات چیت کرنے سے گریز کر رہے ہیں یا سنجیدگی سے مذاکرات کرنے کو تیار نہیں ہیں، تب تک وہ (ثالث) معاملے میں ثالثی کا کردار ادا نہیں کر سکتے۔‘
سفارتی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ غزہ میں فائر بندی کے مذاکرات تعطل کا شکار ہونے کے بعد دوحہ میں حماس کے سیاسی دفتر کا اب کوئی مقصد نہیں ہے۔
قطری اور امریکی حکام دونوں نے اشارہ دیا ہے کہ حماس اس وقت تک دوحہ میں رہے گی جب تک اس کی موجودگی رابطے کا ایک قابل عمل ذریعہ فراہم کرتی ہے۔
قطر چھوڑنے کی درخواست موصول نہیں ہوئی، حماس
دوحہ میں حماس کے ایک سینیئر عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہمیں قطر چھوڑنے کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں قطر کی جانب سے کوئی اشارہ نہیں ملا ہے کہ وہ ملک چھوڑ دیں، جہاں اس گروپ کا سیاسی دفتر برسوں سے قائم ہے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب دوحہ سے ایک سفارتی ذرائع نے بتایا کہ قطر غزہ فائر بندی اور قیدیوں کے معاہدے پر مذاکرات میں اہم ثالث کی حیثیت سے پیچھے ہٹ گیا ہے اور حماس کو متنبہ کیا ہے کہ اس کا دوحہ میں قائم دفتر اب اپنا مقصد پورا نہیں کر رہا۔
لڑائی کے 400 دن
نومبر 2023 میں ہونے والی فائر بندی، جب حماس کے پاس موجود کچھ قیدیوں کو رہا کر دیا گیا تھا، کے بعد والے مذاکرات کے دور تنازع کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
سفارتی ذرائع نے ہفتے کے روز کہا کہ قطر نے ’یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مذاکرات میں خلا کو پُر کرنے کے لیے کسی بھی جانب سے مناسب آمادگی نہیں ہے۔‘
ایک اہم رکاوٹ حماس کا اس بات پر اصرار ہے کہ اسرائیل غزہ سے مکمل طور پر نکل جائے، جسے اسرائیلی حکام بار بار مسترد کرتے رہے ہیں۔
محصور غزہ کی پٹی میں جاری اسرائیلی جارحیت کے 400 ویں دن ہفتے کو لڑائی کم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔
علاقے کی سول ڈیفنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 14 فلسطینی مارے گئے، جن میں سے نو خان یونس کے جنوبی علاقے میں ایک خیمہ کیمپ میں مارے گئے۔
اقوام متحدہ کی حمایت سے جاری کردہ ایک جائزے میں ہفتے کے روز کہا گیا کہ شمالی غزہ میں قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے کیونکہ ’تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال‘ کے باعث کشیدگی میں اضافہ اور خوراک کی امداد تقریباً مکمل طور پر رک گئی ہے۔
اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر، 2023 کو حماس کے حملے کے نتیجے میں ایک ہزار 206 افراد مارے گئے تھے۔
حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر، 2023 کے بعد شروع ہوئی امریکی حمایت یافتہ اسرائیل کی جارحیت میں غزہ میں43 ہزار 552 افراد جان سے گئے، جن میں اکثریت عام شہریوں، خواتین اور بچوں کی ہے۔