اسرائیل کی پارلیمنٹ نے اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے پر پابندی عائد کرنے والے قانون کو منظور کر لیا اور جواز دیا کہ ایجنسی کے کچھ عملے کا مبینہ طور پر تعلق سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے سے تھا۔
اسرائیلی پارلیمان کنیسیٹ نے پیر کو ہونے والی ووٹنگ میں بھاری اکثریت سے یو این آر ڈبلیو اے کو اسرائیل میں کام کرنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ مشرقی بیت المقدس، غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کی بھی منظوری دی۔
یو این آر ڈبلیو اے کی ترجمان جولیٹ توما نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ اشتعال انگیز اقدام ہے کہ اقوام متحدہ کا ایک رکن ملک اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی کو روکنے کے لیے کام کر رہا ہے جو غزہ میں انسانی بنیادوں پر آپریشن کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔‘
یہ نیا قانون اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مشرقی بیت المقدس ہیڈ کوارٹر کو بند کرنے پر مجبور اور امدادی راستوں میں خلل ڈال سکتا ہے، خاص طور پر رفح کے راستے غزہ تک امداد کی ترسیل جس سے ممکنہ طور پر وہاں انسانی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔
بین الاقوامی برادری نے اس قانون سازی کی شدید مخالفت کی ہے جس میں اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت متعدد ممالک نے خبردار کیا ہے کہ اس سے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے خاص طور پر غزہ میں امداد اور خدمات کو خطرہ ہے۔
یو این آر ڈبلیو اے دسیوں ہزار کارکنوں کو ملازمت کے ساتھ ساتھ غزہ، مغربی کنارے، اردن، لبنان اور شام میں لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کو تعلیم، صحت اور امداد فراہم کرتا ہے۔
یو این آر ڈبلیو اے کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا کہ اسرائیلی پارلیمان کا یہ اقدام ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’یہ بل فلسطینیوں کے مصائب کو مزید بڑھائے گا خاص طور پر غزہ میں جہاں لوگ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جہنم جیسی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔‘
برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے اسرائیل کے یو این آر ڈبلیو اے پر پابندی کے بل پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے لیے ضروری انسانی امداد میں خلل ڈال سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’اس قانون سازی سے فلسطینیوں کے لیے یو این آر ڈبلیو اے کے ضروری امور کو ختم کرنے کا خطرہ ہے جس سے غزہ میں انسانی ہمدردی کے پورے بین الاقوامی اقدام اور مغربی کنارے میں صحت اور تعلیم کی ضروری خدمات کی فراہمی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’غزہ میں انسانی صورت حال بالکل ناقابل قبول ہے۔ ہمیں فوری جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی اور غزہ کی امداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے تحت اسرائیل کو غزہ کے شہریوں تک مناسب امداد کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔‘
ادھر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ کو اس بل کے بارے میں ’سخت تشویش‘ ہے۔
انہوں نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ قانون سازی پر عمل درآمد کو روک دے جس کے امریکی قانون کے تحت مضمرات ہو سکتے ہیں۔
دریں اثنا اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے قانون سازی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث یو این آر ڈبلیو اے کارکنوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ چونکہ انسانی بحران سے بچنا بھی ضروری ہے اس لیے غزہ میں اب اور مستقبل میں پائیدار انسانی امداد دستیاب رہنی چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس قانون سازی کے نفاذ کے پہلے کے 90 دنوں میں اور اس کے بعد بھی ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں کہ اسرائیل غزہ کے شہریوں کو اس طرح سے انسانی امداد فراہم کرتا رہے جس سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ نہ ہو۔‘
رواں سال اگست میں اقوام متحدہ نے یو این آر ڈبلیو اے کے عملے کے نو ارکان کو اس بات کا ’ثبوت‘ ملنے کے بعد برطرف کر دیا کہ وہ حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے میں ملوث تھے جس میں 1,200 افراد مارے گئے اور 250 قیدی بنا لیے گئے تھے۔
جنوری میں شروع ہونے والی اقوام متحدہ کے داخلی نگرانی کے ادارے کی تحقیقات میں عملے کے 19 ارکان کے خلاف الزامات کا جائزہ لیا گیا لیکن صرف نو افراد کے خلاف کارروائی کے لیے شواہد ملے جو تمام مرد تھے۔
اس معاملے نے یو این آر ڈبلیو اے کے عطیہ دہندگان میں تشویش پیدا کردی تھی جس کی وجہ سے فنڈنگ بھی عارضی طور پر معطل ہوگئی تھی حالانکہ امریکہ کے علاوہ بیشتر ممالک نے اس ادارے کی امداد بحال کردی ہے۔
مارچ میں یو این آر ڈبلیو اے نے رپورٹ کیا کہ اس کے کچھ ملازمین نے اسرائیلی حراست سے رہا ہونے کے بعد دعویٰ کیا کہ اسرائیلی حکام نے ان پر ایجنسی اور حماس کے درمیان روابط کا جھوٹا اعتراف کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور کہا کہ عملے کے ان ارکان نے سات اکتوبر کے حملوں میں حصہ لیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے پیر کی شب نیویارک میں جاری ایک بیان میں خبردار کیا کہ اگر یہ قوانین نافذ کیے گئے تو اس سے ممکنہ طور پر یو این آر ڈبلیو اے کو اپنا ضروری کام روکنا پڑے گا۔
انتونیو گوتیریش نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یو این آر ڈبلیو اے امداد پہنچانے کا بنیادی چینل ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی جانب سے ایجنسی پر پابندی لگانے کے ’تباہ کن نتائج‘ برآمد ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں اس معاملے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لا رہا ہوں اور اسمبلی کو اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کرتا رہوں گا۔‘
© The Independent