برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے حال ہی میں اپنے ایک ساتھی رکن پارلیمنٹ کو یقین دلایا تھا کہ پاکستانی حکام کی جانب سے فی الحال ’کوئی اشارے‘ نہیں ملے کہ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان کی زمین سے متعلق کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد، نو مئی 2023 کو ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے مظاہرین نے حکومتی اور فوجی عمارتوں پر حملے کیے اور انہیں نقصان پہنچایا۔
ان فسادات کے بعد پی ٹی آئی کے سینکڑوں فالورز اور رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ فوج نے اس تشدد میں ملوث ہونے کے الزام میں کم از کم 103 افراد کے خلاف مقدمات بھی شروع کیے ہیں۔
اس پیش رفت نے خان کے حامیوں میں فوجی عدالت میں ان کے ممکنہ ٹرائل کے بارے میں خدشات پیدا کردیے، جس کے بعد سابق وزیر اعظم نے اس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ عدالت نے ستمبر میں اس درخواست کو اس وقت مسترد کر دیا تھا جب حکومت نے کہا کہ اس نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم کے خلاف مقدمہ چلانا چاہتی ہے یا نہیں۔
پاکستانی فوج کے ترجمان نے ستمبر میں خان کے ممکنہ فوجی ٹرائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے لیکن فوجی اہلکاروں کو ذاتی یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے والے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
لیبر پارٹی کے رکن اسمبلی کم جانسن کی جانب سے 16 اکتوبر کو لکھے گئے خط کے جواب میں برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے انہیں یقین دلایا کہ برطانوی حکومت ملک کی سیاسی صورت حال پر پاکستان کے ساتھ باقاعدگی سے ’اعلیٰ سطح‘ پر بات چیت کر رہی ہے۔
ڈیوڈ لیمی نے 11 نومبر کو بورس جانسن کو لکھے گئے خط میں لکھا کہ ’ہمارے پاس پاکستانی حکام کی جانب سے فی الحال کوئی اشارے نہیں ہیں کہ وہ عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن میرے حکام صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘ برطانوی اہلکار نے کہا انہوں نے خان سمیت عام شہریوں کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے فوجی عدالتوں کے ممکنہ استعمال کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ڈیوڈ لیمی نے مزید کہا کہ ایسی عدالتوں میں شفافیت اور آزادانہ جانچ پڑتال کی کمی ہو سکتی ہے، جس کی وجہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا یہ عدالتیں بین الاقوامی معیار کے مطابق عمل کر رہی ہیں یا نہیں۔
انہوں نے لکھا، ’اگرچہ پاکستان کی عدالتی کارروائی ایک داخلی معاملہ ہے، ہم نے واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستانی حکام کو اپنے بین الاقوامی فرائض کے مطابق عمل کرنا چاہیے اور بنیادی آزادیوں کا احترام کرنا چاہیے، جن میں منصفانہ مقدمے کا حق، قانونی عمل (Due Process)، اور انسانی بنیادوں پر قید کے اصول شامل ہیں۔ اس کا اطلاق عمران خان پر بھی ویسی ہی ہوتا ہے جیسا کہ پاکستان کے تمام شہریوں پر۔‘
ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ وہ پاکستان میں اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی پر پابندیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، جس میں سیاسی مخالفت کے حوالے سے پابندیاں بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا، ’ہم حکام کے ساتھ اپنی بات چیت میں مسلسل اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خیالات کا آزادانہ اظہار اور ان پر قائم رہنے کی آزادی، بغیر کسی سنسرشپ، دھمکی یا غیر ضروری پابندی کے، جمہوریت کی بنیاد ہے۔‘
عمران خان کے قریبی ساتھی سید ذوالفقار بخاری نے لیمی کا خط سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کیا۔
زلفی بخاری نے لکھا، ’آزاد اور منصفانہ انتخابات، اور قانون کی حکمرانی، جو ایک آزاد عدلیہ کے ذریعے مضبوط ہوتی ہے، جمہوریت کے بنیادی اصول ہیں۔ پاکستانیوں کو ابھی بھی ان کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔‘
پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان عمران خان کو اپریل 2022 میں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے انہوں نے ملک کی فوج اور وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت حکومت کے خلاف بے مثال مہم چلائی ہے۔
عمران خان کی جماعت کا کہنا ہے کہ فوج اور ان کے سیاسی حریفوں نے آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کر کے شہباز شریف کی قیادت والی حکومت تشکیل دی۔ وہ دونوں اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔