پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح صوبہ پنجاب کی حکومت بھی معیاری تعلیم کے فروغ کا معاملہ حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم حکومت کی یہ کوشش خاطر خوا نتائج حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئی یہ بھی اپنی جگہ ایک سوال ہے۔
پنجاب کے محکمہ تعلیم میں اہل افسران کی تعنیاتی کے لیے حکومت نے افسران کا گذشتہ ماہ امتحان لیا۔ جن میں سے صوبے بھر میں محکمہ سکول ایجوکیشن کے چیف ایگزیٹو افیسر(سی ای او) ڈپٹی سی ای او اور دیگر 400 پوسٹوں پر تعیناتیاں کرنا تھیں۔
محکمہ تعلیم کی فہرست کے مطابق 400 شارٹ لسٹ افسران میں سے صرف 120 امتحان پاس کر پائے، جس کے بعد بقایا اسامیوں پر تعیناتیوں کے لیے دوبارہ امتحان لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کئی بار یہ دعویٰ کر چکی ہیں کہ ’ہماری حکومت تعلیم کے نظام میں بہتری لانے کے لیے موثر پالیسیاں بنا رہی ہے ان پر عمل درآمد کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔‘
پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہونے اور سرکاری سکولوں میں سہولیات کی کمی کو بہتر کرنے کی حکومتی پالیسیاں اپنی جگہ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان پالیسیوں سے واقعی تعلیم کا نظام بہتر ہو گا؟
ماہر تعلیم ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے بقول: ’دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پبلک سیکٹر سکولوں میں اساتذہ کی تقرریاں اور نظام مقامی انتظامیہ کے پاس ہوتی ہے۔
’ہمارے ہاں سکولوں کو فنڈز بھی سفارش پر اور اساتذہ بھی سیاسی مفادات کے لیے بھرتی کیے جاتے ہیں۔ نظام کو بہتر کرنے کے لیے یکساں نظام تعلیم کے ساتھ سکول چلانے کا اختیار بہتر مقامی حکومتیں تشکیل دے کے ان کے حوالے کرنا پڑے گا۔‘
ٹیچرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر کاشف شہزاد چوہدری نے کہا کہ ’پبلک سروس کمیشن کے تحت تعینات ہونے والے افسران کے 15,15 سال سروس کے بعد امتحان لیے جا رہے ہیں۔ یہ صرف نجکاری کو دوام بخشنے کی کوشش ہے اس سے نظام تعلیم مزید خراب ہو گا۔‘
قابل افسران کی تعیناتی اور نجکاری کی پالیسی
مسلم لیگ ن نے حکومت میں آتے ہی وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے نظام تعلیم کی بہتری کے لیے سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ پارٹرنر شپ کے زریعے چلانے اور محکمہ تعلیم میں اضلاع کی سطح پر قابل ترین افسران کے تقرر کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کے مطابق محکمہ سکول ایجوکیشن کی جانب سے گریڈ 17 سے 18 تک کے انتظامی افسران اور سینیئر اساتذہ سے امتحان لینے کا اعلان کیا۔
اس اعلان کے مطابق گذشتہ محکمہ سکول ایجوکیشن کی جانب سے آئی ٹی ابتدائی ٹیسٹ کے بعد 400 امیدوار افسران شارٹ لسٹ کیے۔ جن کا امتحان لیا گیا اور رواں ہفتے آنے والے نتائج کے مطابق ان میں سے صرف 120 کامیاب ہو سکے باقی سب فیل ہو گئے۔
ترجمان محکمہ تعلیم پنجاب نورالہدیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے صوبے کے تمام اضلاع میں قابل افسران کی تقرری کے لیے 400 آسامیوں پر تعیناتی کرنا ہے۔
’جس کے لیے امتحان لیا گیا تھا لیکن 70فیصد افسران ناکام ہو گئے۔ محکمہ تعلیم سی ای او، ڈی ای او اور ڈی اوز کی میرٹ پر تقرری کرنا چاہتا ہے۔
’ان نتائج کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو 120 افسران امتحان میں پاس ہوچکے ہیں انہیں تعینات کر دیا جائے جبکہ باقی آسامیوں کے لیے دوبارہ امتحان لیا جائے گا۔‘
ادھر پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن پنجاب کی جانب سے جاری کردی تفصیلات کے مطابق پہلے مرحلے میں صوبے بھر کے پانچ ہزار863 سرکاری سکولوں کی نجکاری مکمل کر لی گئی ہے۔
فہرست میں شامل سرکاری سکولوں کو این جی اوز، پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن (پی ای ایف) اور دیگر مختلف پرائیویٹ گروپس کے حوالے کیا جا رہا ہے۔
دوسرے مرحلے میں مزید سات ہزار137 سرکاری سکولوں کی نجکاری کی جائے گی، جس کے لیے درخواستوں کی وصولی کے بعد جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے۔
کاشف شہزاد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’محکمہ تعلیم کے جو افسران نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے نوکریاں پر آئے تھے۔
’انہیں دوبارہ امتحان دینے پر مجبور کیا گیا اور امتحان سے ایک دن پہلے بتایا گیا کہ امتحان پاس کرنا لازمی ہو گا۔ کوئی سلیبس نہیں بتایا گیا بجٹ، پیڈا ایکٹ، سول سرونٹ ایکٹ اور میجمنٹ کے حوالے سے امتحان لیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بھی افسر کو ان تمام معاملات بارے مکمل آگاہی ہو۔ جب سیکرٹری کو لگایا جاتا ہے تو اس سے بھی امتحان لیا جاتا ہے؟ یہ سب 17 سے 18 سکیل کے افسران ہیں جنہیں اچانک اہلیت جانچنے کے لیے امتحان کا بتایا گیا۔‘
کاشف چوہدری نے کہا کہ ’موجودہ حکومت نظام تعلیم کو بہتر کرنے کی بجائے جو چل رہا ہے اسے بھی تباہ کرنا چاہتی ہے۔ سکولوں کی نجکاری، عجیب و غریب اوقات کار طے کیے جا رہے ہیں۔
’ٹیچرز اور افسران ہی تنگ ہوں گے تو وہ کیا تعلیم دیں گے؟ اس طرح کی پالیسیوں سے کبھی بہتری نہیں آئے گی۔ سکولوں میں سہولیات دینے کی بجائے نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا ہے۔‘
حکومتی اقدامات سے نطام تعلیم میں بہتری کا امکان
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن (پی آئی ای) پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق ملک میں دو کروڑ 62 لاکھ کے قریب بچے سکول نہیں جاتے۔ صوبہ پنجاب میں ایک کروڑ 11 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں جبکہ سندھ میں 70 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
خیبرپختونخوا میں 36 لاکھ اور بلوچستان میں 31 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں، اسلام آباد میں تقریباً 80 ہزار تعلیم سے محروم ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی آئی ای کے مطابق سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 2016-17 میں 44 فیصد تھی جو 2021-22 میں کم ہو کر 39 فیصد ہوئی ہے۔
اس صورت حال میں حکومتی پالیسیاں اپنی جگہ لیکن ماہر تعلیم رسول بخش نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پاکستان سمیت پنجاب میں تعلیم کی جو سہولیات موجود ہیں وہ آبادی کے لحاظ سے ناکافی ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی فروغ تعلیم اس وقت تک ممکن نہیں ہوا جب تک یکساں نظام تعلیم یقینی نہیں بنایا گیا۔
’یہاں غریب کے لیے اور تعلیم ہے اور امیروں کے لیے کوئی اور تعلیم ہے۔ پرائیویٹ سکول معیار کے نام پر بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں۔
’دوسری جانب ہماری حکومت ابھی تک یہ طے نہیں کر پائی کہ اصل خرابی کہاں ہے۔ سکولوں کی نج کاری ہو یا افسران کے امتحانات ان پالیسیوں سے نظام میں زیادہ بہتری نہیں آئے گی۔ بلکہ بنیادی ڈھانچے کو بہتر کرنے کی ضرروت ہے۔‘
رسول بخش کے مطابق ’ہم سب سرکاری سکولوں سے پڑھ کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ لہذا بہتری لانی ہے تو مقامی حکومتوں کے زریعے مقامی سطح پر سکولوں کی دیکھ بھال کی جائے۔
’ٹیچرز بھی مقامی اور انتظامیہ بھی مستقل ہونی چاہیے۔ پھر مانیٹرنگ کا نظام بھی سخت ہو گا تو بہتری آئے گی۔ ہمارے ہاں تو سیاسی بنیادوں پر سکول بنائے جاتے ہیں اساتذہ بھرتی ہوتے اور سہولیات کے لیے بھی ہر بار سیاسی سفارش سے فنڈز ملتے ہیں۔‘
’اگر نظام تعلیم کو ٹھیک کرنا ہے تو اس پورے نظام کو غیر سیاسی بنانا لازمی ہے۔‘