اسلام آباد سے اغوا کیے جانے کے 12 گھنٹوں بعد چھوڑ دیے جانے والے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان نے ایک ویڈیو میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا احوال بیان کیا ہے۔
اس ویڈیو سے پہلے صحافی مطیع اللہ جان نے جمعرات کو اسلام آباد کے تھانہ آبپارہ میں پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔
چار صفحات پر مبنی بیان میں مطیع اللہ جان نے اپنے اغوا کا تمام احوال بتایا ہے۔
پولیس کو بیان ریکارڈ کروانے کے بعد صحافی مطیع اللہ جان نے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک لائیو ویڈیو میں اپنے اغوا کے بارے میں سب کچھ بتایا۔
خیال رہے کہ سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کو رواں ہفتے چند نامعلوم افراد اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس سے اس وقت اغوا کر کے لے گئے تھے جب وہ اپنی اہلیہ کو سکول چھوڑنے کے لیے آئے۔
تاہم بعد میں تقریباً 12 گھنٹوں بعد انہیں فتح جنگ کے قریب چھوڑ دیا گیا تھا۔
صحافی مطیع اللہ جان نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب اپنی اہلیہ کو سکول چھوڑنے آئے تو کچھ میسج اور دستاویزات دیکھنے کے لیے وہ کچھ دیر سکول کے باہر ہی رک گئے تھے۔
اسی دوران چند گاڑیاں آئیں اور انہیں زبردستی گاڑی سے نکال کر دوسری گاڑی میں بیٹھانے کی کوشش کی۔
’میں نے اہلیہ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے موبائل سکول میں پھینک دیا۔ مجھے اغوا کرنے والے افراد میں چند سادہ لباس میں تھے جبکہ کچھ نے وردی پہن رکھی تھی۔
’ان باوردی افراد میں کچھ مسلح تھے اور کچھ غیرمسلح تھے۔‘
مطیع اللہ جان نے کہا کہ ان اغواکاروں نے انہیں ایک ہتھکڑی پہنائی جو ’پولیس کی سرکاری ہتھکڑی‘ دکھائی دے رہی تھی اور ان کے سر پر کالا کپڑا ڈال دیا۔
’جب کہا کہ مجھے سانس لینے دیں تو کپڑا ناک سے اوپر کر کے باندھ دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ان اغواکاروں میں سے ایک شخص لگاتار انہیں زدوکوب کر رہا تھا۔
’وہ کہتے رہے تم صحافی ہو تمہیں پتہ نہیں۔ تم ایسی باتیں کیوں کرتے ہو، بڑے پڑھے لکھے بنتے ہو۔ تمہیں پتہ ہے کہ کیا کرنا ہے۔‘
مطیع اللہ جان کے مطابق کوئی ایک گھنٹہ سفر کرنے کے بعد ایسی جگہ لے گئے جہاں بڑے بڑے لوہے کے دروازے کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
’وہ مجھے زدوکوب کرتے رہے اور کہتے رہے کہ تمہیں سمجھ نہیں آ رہی۔ مجھے تو سمجھ آ رہی تھی کہ یہ کیسے لوگ ہیں میں ان سے کیا بات کروں۔‘
صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ وہ اغواکار انہیں ان کے بچوں کا نام لے لے کر دھمکاتے رہے۔
’میں ان سے کہتا رہا کہ میری سپریم کورٹ میں پیشی ہے آپ چاہتے کیا ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ تم سمجھ دار ہو تمہیں معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے خود کو پڑھا لکھا کہتے ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ بعد میں وہ لوگ پٹی کھول کر ان کے ماتھے پر باندھ کر چلے گئے۔
’جب میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ’ایک دیوار پر پولیس کے رنگوں کے نشان تھے اور حوالات جیسی جگہ لگ رہی تھی۔ ساتھ میں ایک جگہ پر تیر کا نشان تھا جس کے ساتھ لکھا تھا محرر۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’سمجھ نہیں آئی کہ انہوں نے ماتھے سے پٹی ہٹا کر ہاتھوں میں ہتھکڑیاں چھوڑ کر کیوں چلے گئے۔‘
’وہ پشتو بولنے کی کوشش کرتے تھے اور کہتے تھے ’ٹائم نشتہ‘ (ٹائم نہیں ہے)۔
انہوں نے کہا کہ ’چند گھنٹے بعد کچھ لوگ اندر آئے اور پھر سے زدوکوب کرنے لگے اور کپڑا منہ پر چڑھا دیا۔‘
’اس وقت ہتھکڑی کھول کر میرے ہاتھ پیچھے باندھ دیے۔ پھر انہوں نے مجھے گاڑی میں پھینکا اور گاڑی چل پڑی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’کچھ دیر بعد گاڑی سڑک سے کچے راستے پر آ گئی۔۔ مجھے گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا گیا، مجھے لگا جیسے کچھ صحافیوں کے ساتھ ہوا ویسا ہی ہونے والا ہے۔‘
’پشتو بولنے کے کوشش کرتے ہوئے انہوں نے پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے۔ پھر آواز آئی کے آپ زرق خان نہیں ہیں۔۔ میں نے کہا کہ نہیں میں مطیع اللہ جان ہوں۔۔ پھر انہوں نے کہا کہ یہ تو کوئی اور بندہ ہے۔‘
مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ پھر وہ لوگ انہیں وہیں چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے مطابق جب وہ مشکل سے سڑک کی طرف آئے تو اندھیرے کی وجہ سے انہیں معلوم نہیں ہو پا رہا تھا کہ وہ ہیں کہاں۔
’وہاں ایک بڑا پتھر لگا تھا جس پر کچھ تحریر موجود تھی اور اس تحریر کے ابتدائی الفاظ تھے محکمہ زراعت پنجاب۔‘
مطیع اللہ جان نے اپنی ویڈیو کے آخر میں اغواکاروں کے حوالے سے کہا کہ ’مجھے اغوا کرنے والے وہی لوگ تھے جو جمہوریت، آئینی بالادستی، ملک اور سیاسی نظام کے خلاف ہیں۔‘