احتجاج کے دوران رینجرز اہلکاروں کی اموات: اسلام آباد پولیس کے بیانات میں تضاد

اس واقعے کو لے کر ایک جانب حکومت نے پی ٹی آئی کے مظاہرین پر الزام عائد کیا کہ رینجرز اہلکاروں پر انہوں نے حملہ کیا تو دوسری طرف پی ٹی آئی ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسے محض سڑک حادثہ قرار دے رہی ہے۔

سکیورٹی اہلکار اسلام آباد میں 24 نومبر، 2024 کو پی ٹی آئی کے احتجاج سے پہلے ریڈ زون کی طرف جانے والی ایک بند سڑک پر پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی)

اسلام آباد میں حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ہونے والے احتجاج کے دوران رینجرز اہلکاروں کے مبینہ طور پر تیز رفتار گاڑی سے کچلے جانے کے واقعے پر متفرق بیانات سامنے آ رہے ہیں۔

26 نومبر کو سری نگر ہائی وے پر ایک گاڑی سے تین رینجرز اہلکاروں کے کچلے جانے سے متعلق خبر سامنے آئی۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب شہر میں پاکستان تحریک انصاف کا مارچ داخل ہو چکا تھا۔

اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو جمعرات کو بتایا کہ اس واقعے کی ایف آئی آر تاحال درج نہیں کی گئی جبکہ متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے لیکن اس کی معلومات اور ایف آئی آر کی کاپی شیئر نہیں کی جا سکتیں۔

اس واقعے کو لے کر ایک جانب حکومت نے پی ٹی آئی کے مظاہرین پر الزام عائد کیا کہ رینجرز اہلکاروں پر انہوں نے حملہ کیا تو دوسری طرف پی ٹی آئی ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسے محض سڑک حادثہ قرار دے رہی ہے۔

جبکہ جمعرات کو وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے ایک بیان میں کہا کہ ’سوشل میڈیا پر جھوٹا بیانیہ بنایا گیا کہ رینجرز کے جوانوں کو ان کے اپنے لوگوں نے شہید کیا۔ مجرم کی شناخت کر لی گئی ہے، اس کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد سے ہے۔‘

دو روز قبل وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ڈی چوک پر میڈیا سے گفتگو میں اسلام آباد میں واقع سری نگر ہائی وے پر ’شرپسندوں کے حملے سے رینجرز کے چار اہلکاروں کے مارے جانے‘ سے متعلق انکشاف کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس میں ’ملوث تمام شرپسندوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔‘

وزیر داخلہ کی اس پریس کانفرنس سے قبل گذشتہ روز سکیورٹی اداروں کی جانب سے میڈیا کو ایک سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی گئی جس کا دورانیہ 14 سیکنڈ ہے۔

ویڈیو پر 26 نومبر کی رات دو بج کر 44 منٹ کا وقت درج ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سیکٹر جی 10 کے سگنل پر ایک تیز رفتار گاڑی مین روڈ پر کھڑے چند افراد کو کچلتے ہوئے گزر جاتی ہے۔

سکیورٹی ذرائع نے اس واقعے سے متعلق دعویٰ کیا ہے کہ ’شرپسندوں کی تیز رفتار گاڑی نے نام نہاد احتجاج کی آڑ میں اسلام آباد میں ڈیوٹی پر مامور رینجرز اہلکاروں کو کچل ڈالا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ شرپسندوں کی تیز رفتار گاڑی درخت کے عقب سے آتے ہوئے رینجرز اہلکاروں کو کچلتے ہوئے آگے نکل گئی۔‘

محسن نقوی نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں رینجرز کے تین اہلکار مارے گئے اور تین شدید زخمی ہوئے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے مزید تفصیلات جاننے کی کوشش کی ہیں۔

ایک طرف سکیورٹی ذرائع نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’واقعہ اس وقت پیش آیا جب رینجرز کے جوان ناکے پر تعینات ہو رہے تھے۔ یہ واقعہ بھی شر پسندوں کی منظم اور سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کیا گیا، جس کو سی سی ٹی وی فوٹیج میں واضح دیکھا جا سکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر واقعے کو حقائق کے برعکس توڑ مروڑ کر ’جھوٹا پروپیگنڈا‘ کیا جا رہا ہے۔

’اس سے قبل بھی پرتشدد مظاہرین کی متعدد ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز کے ذریعے شر پسندوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔‘

تاہم اسلام آباد پولیس نے اس واقعے سے متعلق دو مختلف بیانات دیے ہیں۔

چونکہ یہ واقعہ تھانہ رمنا کی حدود میں ہوا لہٰذا انڈپینڈنٹ اردو نے اس تھانے میں تعینات پولیس افسر اور ترجمان اسلام آباد پولیس سے بات کر کے معاملہ جاننے کی کوشش کی ہے۔

تھانہ رمنا کے سٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ٹیپو سلطان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’واقعے کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے لیکن اس کی معلومات اور کاپی اس وقت شیئر نہیں کی جا سکتیں۔ کاپی ترجمان کی جانب سے ہی جاری کی جائے گی۔‘

جب انڈپینڈنٹ اردو نے ترجمان اسلام آباد پولیس تقی جواد سے اس واقعے کی تفصیلات پوچھیں تو انہوں نے کہا ’مجھے کنفرم نہیں لیکن وہ فرد اور گاڑی تو ہم نے پکڑ لی تھی۔‘

اس سوال کہ ’حادثے میں ملوث شہری کیا پی ٹی آئی کا کارکن تھا یا عام شہری؟‘ پر ترجمان نے کہا یہ انہیں دیکھنا پڑے گا۔

جب پوچھا گیا کہ تاحال واقعے کی ایف آئی آر درج کیوں نہیں ہوئی تو تقی جواد نے کہا کہ ’انسپیکٹر جنرل نے بتایا ہے کہ سات انسداد دہشت گردی کی ایف آئی آر ہوئی ہیں، وہ میں نے منگوائی ہوئی ہیں۔ چونکہ یہ انسداد دہشت گردی کی ایف آئی آرز ہیں، یہ عوامی دستاویزات نہیں ہوتیں لیکن میں نے ذمے لگایا ہوا ہے۔ مجھے جیسے ہی ملتی ہیں، میں آپ کے ساتھ شئیر کرتا ہوں۔‘

انہوں نے رینجرز واقعے کے مقدمے کے حوالے سے کہا کہ ’مجھے چیک کرنا ہوگا، اس حادثے کی طرف دھیان نہیں گیا، اس لیے پوچھا ہی نہیں۔ آپ نے پوچھا تو متوجہ ہوا، اس کا پتہ کرتا ہوں۔‘

اس سوال پر کہ ’کیا یہ حادثہ تھا یا جان کر یہ واقعہ کیا گیا؟‘ ترجمان نے کہا ’یہ تفتیش سے معلوم ہوگا کہ جان کر مارا گیا یا گاڑی لگی، تفتیش سے ہی پتہ چل سکے گا کہ پی ٹی آئی کا حامی ہے یا عام آدمی تھا، یا نشے میں تھا، یا خوشی یا کسی مقصد سے آ رہا تھا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کے دوسری مرتبہ رابطہ کرنے پر ترجمان اسلام آباد پولیس نے جواب دیا ’چونکہ اس (واقعے) کا رینجرز نے ابھی استغاثہ دینا ہے، وہ جیسے تیار ہو گا تو ایف آئی آر درج ہو گی۔‘ 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان