سیاح جلد ہی انڈیا کے چند مشہور حالیہ جنگی میدانوں تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔ ان مقامات میں برف سے ڈھکا سیاچن گلیشیئر، کارگل جنگ کا علاقہ اور وادی گلوان شامل ہیں۔
انڈین فوج کے چیف جنرل اپیندر دیویدی نے کہا کہ فوج ان تاریخی مگر دشوار گزار علاقوں کو سیاحوں کے لیے کھولنے پر کام کر رہی ہے۔
جنرل دیویدی کو بدھ کو ساوتری بائی پھولے پونے یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ ’ہم جنگی میدانوں، بشمول کارگل اور گلوان، کو سیاحوں کے لیے کھول رہے ہیں تاکہ وہ ان جگہوں کا براہ راست تجربہ حاصل کر سکیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ہمالیائی سرحدی علاقے میں سیاحت حالیہ برسوں میں بے پناہ بڑھ چکی ہے اور 48 مقامات کو مزید ترقی کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
انڈین فوج نے سرحدی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں اتراکھنڈ میں ’سول آف سٹیل‘ ٹریک کا آغاز اور مقامی دیہاتیوں کو کوہ پیمائی اور ایڈونچر سپورٹس کی تربیت دینا شامل ہیں۔
دنیا کا سب سے بلند اور سرد ترین جنگی میدان، سیاچن گلیشیئر، اور کشمیر میں کارگل، جو 1999 کی پاکستان کے ساتھ جنگ کا مقام ہے، انڈیا کے لیے عظیم تاریخی اور جغرافیائی اہمیت رکھتے ہیں۔
وادی گلوان، جہاں چار سال قبل چینی فوج کے ساتھ جھڑپ میں 20 انڈین فوجی جان سے گئے، اب بھی بیجنگ کے ساتھ ایک فعال سرحدی تنازعے میں شامل ہے، حالاں کہ حال ہی میں دونوں ممالک نے کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا۔
قبل ازیں جنرل دیویدی نے ستمبر میں اخبار دا ٹریبیون سے بات چیت میں کارگل جنگ کے ایک مقام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اب آپ کو ٹائیگر ہل پر چڑھنے اور جنگ کے میدان دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔‘
ایسے ’دشوار گزار علاقوں‘ کو کھولنے کے ارادے کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’بنیادی ڈھانچہ اور قدرتی ماحول کسی بھی دعوے کے راستے میں رکاوٹ بنیں گی۔‘ جو غالباً چین کے ساتھ حقیقی لائن آف کنٹرول پر واقع متنازع علاقوں کی طرف اشارہ ہے۔
سرحدی سیاحت کے لیے سٹریٹجک علاقوں کو کھولنے کا اقدام تقریباً ایک ماہ بعد سامنے آیا جب انڈیا اور چین نے متنازع ہمالیائی سرحد پر فوجی گشت سے متعلق معاہدے کا اعلان کیا، جو 2020 کی جھڑپوں کے بعد شروع ہونے والے تعطل کو حل کرنے کی سمت میں ایک اہم پیشرفت ہے۔
انڈیا اور چین کی مشترکہ سرحد 3488 کلومیٹر طویل ہے جو مغرب میں لداخ سے لے کر مشرق میں اروناچل پردیش تک پھیلی ہوئی ہے۔ چین لداخ میں ایک وسیع علاقے، اکسائی چن، پر قابض ہے جو اس نے 1962 کی جنگ میں انڈیا سے حاصل کیا تھا، اور اروناچل کو تبت کے صوبے کا حصہ قرار دیتا ہے۔
پڑوسی ممالک کے تعلقات جولائی 2020 میں اس وقت اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے جب وادی گلوان، لداخ میں جھڑپ کے دوران کم از کم 20 انڈین اور چار چینی فوجی مارے گئے۔ 45 سال پہلی بار سرحد پر ہونے والی کسی جھڑپ میں اموات ہوئی ہوں۔
یہ جھڑپ جلد ہی ایک تعطل میں تبدیل ہو گئی اور دونوں جانب ہزاروں فوجی، توپ خانے، ٹینک اور جنگی طیارے سرحد کے ساتھ تعینات کر دیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنرل دیویدی کے اعلان پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ کچھ مبصرین اسے حب الوطنی اور آگاہی کو فروغ دینے کے لیے ایک قدم سمجھتے ہیں، جبکہ دوسروں کو اس کے انتظامی اور سٹریٹجک چیلنجز پر تشویش ہے۔
چین کی دفاعی اور خارجہ پالیسیوں کے ماہر، سویش ڈیسائی نے دی انڈیپینڈنٹ کو بتایا: ’ان علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینا ہمارے فوجیوں کی قربانیوں اور ان مشکل حالات کو براہ راست سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے جن کا وہ سامنا کرتے ہیں۔ یہ ان کی قربانیوں اور جدید تاریخ کو نمایاں کرنے کا ایک موقع ہے۔‘
ڈیسائی نے مزید کہا کہ یہ اقدام مقامی معیشتوں کو سیاحت کے ذریعے فروغ دے سکتا ہے۔ ’یہ عام شہریوں کو ان علاقوں کے حقائق سے جوڑنے، آگاہی اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کا ایک عمدہ طریقہ ہے۔‘
کارنیگی انڈیا کی سینیئر ریسرچ تجزیہ کار شبانی مہتہ نے فوجی قربانیوں کی یاد منانے کے لیے متبادل طریقوں پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ان مقامات کا دورہ فوجی تاریخ کے ساتھ گہرے جذباتی تعلق پیدا کر سکتا ہے، لیکن روایتی جنگی یادگاریں، عجائب گھر اور تعلیمی پروگرام بھی یہی مقصد بغیر دور دراز اور غیر محفوظ علاقوں میں سفر کیے حاصل کر سکتے ہیں۔
’سوال یہ ہے کہ کیا حقیقی جنگی مقامات کا دورہ کرنے کا اضافی اثر ان خطرات اور ماحولیاتی اثرات کو جواز فراہم کرتا ہے؟‘
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل رمیشور رائے نے کہا کہ فوج کا وادی گلوان جیسے مقامات پر سیاحت کو فروغ دینے کا فیصلہ اپنے کچھ پوشیدہ مقاصد سے خالی نہیں۔
انہوں نے دی انڈیپینڈنٹ کو بتایا کہ ایک مقصد چین کے ساتھ علاقائی نقصان کے بیانیے کو کمزور کرنا ہو سکتا ہے۔
’یہ شاید عام شہریوں کو یہ دکھانے کا ایک طریقہ ہو کہ چینی قبضے کے دعوے مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔‘
انہوں نے شہریوں کے لیے سرحدوں کی تصدیق کی مشکلات پر روشنی ڈالی، کیونکہ سرحدی حدود نہ تو عملی طور پر نظر آتی ہیں اور نہ ہی غیر تربیت یافتہ افراد انہیں آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ زمین پر واضح نشانات یا لکیروں کی عدم موجودگی ان دوروں کی پیچیدگی کو اجاگر کرتی ہے، جس کی وجہ سے یہ اقدام زیادہ تر علامتی نوعیت کا لگتا ہے۔
ان علاقوں کی ناقابل برداشت زمین، جہاں بلندی 16000 سے 18000 فٹ تک ہے، بڑے پیمانے پر سیاحت کی عملی شکل پر سوالات اٹھاتی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل رائے کے بقول: ’یہاں تک کہ تربیت یافتہ فوجی بھی اس ماحول میں شدید مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔‘ انہوں نے یہ زور دیا کہ عام شہریوں کو صحت کے شدید خطرات، جیسے کہ بلندی کی وجہ سے ہونے والی بیماری یا دل کے مسائل سے بچنے کے لیے ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہو گی۔
شہری بنیادی ڈھانچے کا فقدان معاملات کو مزید پیچیدہ بناتا ہے کیونکہ فوج کو ممکنہ طور پر ہنگامی حالات کے دوران نقل وحمل اور امدادی کارروائیوں میں کردار ادا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’اور اگر ہماری حکومت اجازت دے دی تو غیر ملکی بھی اس میں کود پڑیں گے، اور وہ سب آئیں گے اور ظاہر ہے ہم غیر ملکی سیاحوں کو اپنے سرحدی علاقوں کا نقشہ تیار کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، آپ کو معلوم ہے۔‘
ڈیسائی ان خدشات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن فوج پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ ان باتوں کا مناسب انتظام کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ مناسب اقدامات کیے جائیں گے، جیسے مخصوص راستوں کا تعین اور یہ یقینی بنانا کہ حساس جغرافیائی تفصیلات ظاہر نہ ہوں۔‘
ان کے نزدیک متنازع سرحد پر مستقل صورت حال قائم کرنا وسیع تر مقصد ہے۔ انہوں نے چین کی حکمت عملی کا حوالہ دیا جو حقیقی لائن آف کنٹرول کے ساتھ بستیوں کی تعمیر پر مبنی ہے، جسے انڈیا کو بھی اپنانا چاہیے۔
خبروں کے مطابق، چین نے اپنی سرحدوں، خاص طور پر انڈیا کے ساتھ متصل علاقوں میں، نئی بستیاں قائم کی ہیں۔ بیجنگ کی جانب سے ’سرحدی محافظ‘ کہلانے والی یہ بستیاں سرحدی دعوؤں کو مضبوط کرنے اور سلامتی کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہیں۔
اطلاعات کے مطابق چین نے تبت میں انڈیا کی سرحد کے ساتھ، لداخ سے لے کر اروناچل پردیش تک، 628 سے زیادہ ایسی بستیاں تعمیر کی ہیں۔ ان بستیوں کے دوہرے مقصد کے ڈیزائن، جن میں شہریوں اور فوجیوں دونوں کے لیے رہائش شامل ہے، نے انڈیا کے فوجی اور سٹریٹجک حلقوں میں خدشات کو جنم دیا۔
ڈیسائی نے کہا کہ سرحدی علاقوں میں سیاحت کو فروغ دے کر اور بستیاں قائم کر کے ’انڈیا ایک نیا مستقل ماحول مؤثر طریقے سے تشکیل دے رہا ہے، جس سے دشمنوں کے لیے سرحدوں کو تبدیل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ یہ چین کی پیشرفت کا ضروری جواب ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گو کہ اس پر پیسہ خرچ ہو گا، ان علاقوں میں شہری موجودگی کا سٹریٹجک فائدہ انمول ہے۔ یہ ان سرحدوں کو زیادہ مستقل بنانے کی سمت میں ایک قدم ہے۔‘
لیفٹیننٹ جنرل رائے نے استدلال کیا کہ ’سرحدی دیہات کی ترقی ہماری سرحدی پٹی کو محفوظ بنانے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ یہ سکیورٹی فورسز کو تعینات کرنے کے مقابلے میں کہیں بڑا اور ٹھوس قدم ہے، لیکن حکومت کو اس کے لیے سنجیدگی سے قدم اٹھانا ہو گا۔ محض فوج کے بیانات اس حوالے سے کافی نہیں ہوں گے۔‘
© The Independent