قراقرم ریجن کے سیاچن گلیشیئر پر گیاری سیکٹر میں واقع پاکستانی فوج کے بٹالین ہیڈ کوارٹر پر 12 سال قبل گرنے والے برفانی تودے کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔ اس حادثے میں 140 اموات ہوئی تھیں، جن میں افسران و جوانوں سمیت 11 سویلینز بھی شامل تھے۔
بٹالین ہیڈکوارٹر سے فاصلے پر واقع دوسرے پہاڑ پر ایک گارڈ پوسٹ تھی، جہاں ایک سنتری ایسے بھی تھے، جو برفانی تودے کو گرتے دیکھ کر بے ہوش ہو گئے تھے۔ ان کے مطابق: ’ایسا لگ رہا تھا کہ ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ کے اوپر گر گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیاچن کے گیاری سیکٹر میں پڑا ملبہ اُس قیامت کی داستان سناتا ہے، جو 140 زندہ انسانوں پر پل بھر میں گزری تھی اور جس کے بعد صرف ان کے بے جان جسموں کے نشان ہی مل سکے تھے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے سیاچن میں واقع گیاری سیکٹر کا دورہ کیا، جہاں برفانی تودے کے مقام سے ہٹ کر ایک یادگار بھی قائم کی گئی ہے، جس کا مقصد حادثے میں جان سے جانے والے افراد کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا۔
سیاچن میں جانیں قربان کرنے والے افسران و جوانوں کی یاد میں قائم یادگار پر سیاحوں کو بھی جانے کی اجازت ہے۔ وہاں اس سانحے میں جان سے جانے والوں کے نام درج ہیں۔
کمانڈنگ آفیسر لیفٹینیٹ کرنل ضیغم نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپریل 2012 میں پیش آنے والے اس اندوہناک واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ حادثہ چھ اور سات اپریل کی درمیانی شب کو پیش آیا تھا اور صبح ہی مقامی مدد پہنچ گئی لیکن برفانی تودے کا ملبہ اتنا زیادہ تھا کہ اسے بغیر مشین کے ہٹایا نہیں جا سکتا تھا۔ ملبے کے نیچے پورا بٹالین ہیڈ کوارٹر آ چکا تھا، جہاں 140 جانیں زندہ دفن ہو گئیں۔
’بیرون ملک سے منگوائی گئی مشینوں کی مدد سے جو پہلی ڈیڈ باڈی ملی وہ سانحے کے 49 ویں دن ملی تھی۔ ڈیڑھ سال تک یہ آپریشن چلا جس کے نتیجے میں 133 ڈیڈ باڈیز نکالی جا سکیں، جب کہ سات ڈیڈ باڈیز کا آج تک کچھ علم نہیں کیونکہ اتنی کھدائی اور سینسرز کے باوجود ان کا نام و نشان نہیں مل سکا۔ شاید وہ کہیں بہت نیچے چلی گئی تھیں یا دریا میں بہہ گئیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ بہت سی لاشیں درست حالت میں بھی نہیں تھیں اور ان کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ سے کی گئی۔
سیاچن کی اہمیت بتاتے ہوئے ڈپٹی کمانڈر سیاچن برگیڈ برگیڈیئر نیر نے بتایا کہ ’1984 میں انڈین فوج نے سیاچن کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی تھی، جس کے جواب میں افواج نے سیاچن گلیشیئر پر اپنے دفاع کو مضبوط کیا۔ اسے دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پر بلندی پر موجود فوجی پوسٹوں کو سپورٹ کرنے کے لیے بٹالین ہیڈ کوارٹر بنایا گیا تھا، جو بنیادی طور پر فوجی پوسٹوں کے لیے بیس کیمپ کا کام کرتا ہے۔‘
برفانی تودہ گرنے کے بعد دوبارہ بٹالین ہیڈ کوارٹر بناتے وقت کن باتوں کو مدنظر رکھا گیا؟ اس سوال کے جواب میں لیفٹینیٹ کرنل ضیغم نے بتایا کہ ’دوبارہ بٹالین ہیڈ کوارٹر پھر ادھر نہیں بنایا گیا بلکہ پانچ کلومیٹر پیچھے بنایا گیا۔
’جیولوجیکل ٹیم نے آ کر علاقے کا سروے کیا اور جس علاقے کو انہوں نے محفوظ قرار دیا وہاں بٹالین ہیڈ کوارٹر بنایا گیا۔ تمام خطرناک مقامات کا سروے کیا گیا، جس کے بعد برفانی تودہ گرنے والے مقام کو بھی خطرناک قرار دیا گیا۔ سلائیڈنگ والے علاقوں میں خفاظتی دیواریں بنائی جاتی ہیں تاکہ سلائیڈز سے بچا جا سکے۔‘
احتیاطی اقدامات کے طور پر ریسکیو کے لیے اب ٹیکنالوجی کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈپٹی کمانڈر سیاچن برگیڈ برگیڈیئر نیر نے بتایا کہ ’جب بھی پاکستانی فوج کوئی ہیڈ کوارٹر بناتے ہیں، خصوصاً پہاڑی علاقوں میں تو خاص سروے کیا جاتا ہے۔ اسے تکنیکی اعتبار سے بھی دیکھا جاتا ہے کہ علاقہ ٹھیک ہے کہ نہیں، لیکن غیر معمولی طور پر موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ سے برفانی تودہ گرنے کا واقعہ پیش آیا تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہر سال جیولوجیکل سروے ہوتا ہے، ٹیمیں آتی ہیں اور تازہ صورت حال مانیٹر کرتی ہیں۔ پھر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ فوجی پوسٹ یا ہیڈ کوارٹر ادھر ہی رہے یا جگہ تبدیل کی جائے۔‘
لیفٹینیٹ کرنل ضیغم نے بتایا کہ ’ریسکیو کتوں کے علاوہ اب ایس ایس آر ڈیوائس بھی استعمال کی جاتی ہیں، جس کی مدد سے پہاڑی علاقوں میں کسی کے شگاف میں گرنے یا تودے کی زد میں آنے کی صورت میں ٹریس کرنا آسان ہو جاتا ہے۔‘