ایک مرتبہ پھر کابینہ میں ردوبدل کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ لیکن اس پر بات کرنے سے پہلے میں پی پی پی اور مسلم لیگ نون کا مشکور ہوں کے انہوں نے مولانا فضل رحمان کے دھرنے کی تاریخ اور مقاصد پر تمام پارٹیوں میں مشاورت تک اسے موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حزب اختلاف کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم سب یہ دعوی کرتے ہیں کہ پچھلے الیکشن میں انجینرنگ اور دھاندلی ہوئی تو سب سے پہلے ہم سب کو اس کی تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ انجینرنگ اور دھاندلی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ پچھلی کئی دھائیوں سے ہر جماعت دھاندلی کا رونا روتی ہے مگر یہ کام کرنے والوں کو کبھی سزا نہیں ملتی۔
بلوچستان ہائی کورٹ کی الیکشن ٹریبونل نے پچھلے ہفتہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا الیکشن دھاندلی کی بنیاد پر منسوخ کر دیا۔ اس الیکشن کے پریزایڈنگ افسر کو اپنے فرائض ادا نہ کرنے کے جرم میں قرار واقعی سزا دی جائے۔ اب میں ایک دفعہ پھر یہ دعوی کر رہا ہوں کے سب سے بڑی انتخابی انجینرنگ کراچی میں ہوئی اور تمام بیگوں کو اگر کھولا جائے تو اب بھی اس میں دھاندلی کے ثبوت ملیں گے۔ حزب اختلاف کو پارلیمان کی تحقیقاتی کمیٹی کو ایک دفعہ پھر تشکیل دینا چاہیے اور اس کا سربراہ حزب اختلاف سے ہونا چاہیے۔
اب کابینہ کی بات کرتے ہیں۔ عمران خان سبز باغ دکھانے کے ماہر ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے لوگوں کو تو انہوں نے ابھی جھوٹے وعدے کرنے شروع کئے ہیں مگر پاکستانی قوم کو وہ یہ باتیں 22 سال سے کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کے بعد پوری کابینہ ڈھول لے کر ائیرپورٹ گئی کے دورہ بہت کامیاب رہا اور ایک مزید ورلڈ کپ کا اضافہ ہو گیا۔ اگر یہ بات سچ تھی تو اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی کو اتنی جلدی میں ہٹانے کی کیا ضرورت تھی؟ صرف یہی نہیں ان کے خلاف جھوٹی خبریں بھی سوشل میڈیا پر چلائی گئیں۔ ان کے بدلے لگایا کسے؟ وہی سفیر جو جنرل مشرف کے چہیتے تھے۔
عمران خان کا سب سے بڑا وعدہ یہ تھا کہ وہ ایک انتہائی قابل ٹیم بنا رہے ہیں۔ مگر جب حکومت ملی تو آدھی ٹیم آئی ایم ایف نے دی اور باقی آدھی انجینرز کے چہیتے جو مشرف دور کے مزے بھی لے چکے ہیں وہ ہیں۔ ایسا نہیں کہ تحریک انصاف میں قابل لوگوں کی کمی تھی۔ مگر المیہ یہ ہے کہ عمران خان اپنی ذات میں اتنے گم ہیں کہ انہیں اپنے علاوہ کوئی نظر ہی نہیں آتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چاپلوس جو سارا وقت ان کی تعریفیں کرتے رہیں انہیں بہت پسند ہیں۔ قابل آدمی کے اندر عزت نفس ہوتی ہے اور وہ چاپلوسی کر ہی نہیں سکتا۔ جسٹس وجیہہ عدلیہ کے ماہر تھے مگر ان کی جگہ اب فرغ نسیم مشورے دے رہے ہیں اور آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔
تسنیم نورانی سے زیادہ بیوروکریسی کوئی نہیں جانتا مگر اس کی اصلاح عشرت حسین کر رہے ہیں جنہوں نے ساری زندگی پاکستان سے باہر کام کیا۔ ناصر درانی جنہوں نے خیبر پختونخوا کی پولیس کو سنوارا صرف ایک ہفتہ میں گھر چلے گئے۔ جنرل علی قلی خان سے زیادہ فوج اور دفع کو کوئی نہیں جانتا مگر ان کی بات خان کو کبھی سمجھ نہ آئی۔ سلیم جان پنجاب بینک کر سربراہ تھے مگر اقتصادی اصلاح کے لیے ان سے کوئی مشورہ نہیں ہوا۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں ایسے ہزاروں لوگ پارٹی میں آئے مگر خان کی ناقدری کا شکار ہو کر چھوڑ گئے اور ’کچرہ‘ خان کے گرد جمع ہو گیا۔
قابلیت تو ایک طرف مگر خان کو یہ بھی نہیں پتا کہ کس آدمی سے کیا کام لینا ہے۔ اسد عمر کو عوامی اقتصادیات کی الف بے بھی نہیں پتہ انہیں وزیر خزانہ لگا دیا۔ اب سنا ہے پٹرولیم کی وزارت ملنے والی ہے۔ اسد عمر کو بی او آئی کا سربراہ بنانا چاہیے تھا ان کی سب سے اہم صلاحیت مارکیٹنگ اور سرمایہ کاری ہے۔
شاہ محمود قریشی کو وزیر خارجہ بنا دیا جسے نہ تاریخ کا پتہ ہے نہ جغرافیہ کا۔ انہیں وزیر داخلہ لگانا چاہیے تھا۔ شفقت محمود کا تعلیم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے انہیں اعلی تعلیم کا وزیر بنا دیا۔ انہیں وزیر اطلاعات بنانا چاہیے تھا تاکہ پالیسیوں کو بردباری کے ساتھ بیان کر سکیں۔ غرض ہر آدمی کو غلط جگہ لگایا ہے اور پھر شکوہ یہ کہ کارکردگی صفر ہے۔ سب سے زیادہ جس آدمی کی کارکردگی صفر ہے وہ خود وزیر اعظم ہیں۔ مگر انہیں صرف انجینرز ہی ہٹا سکتے ہیں اور کوئی نہیں کیوں کہ وہی انہیں اپنے کندھوں پر بٹھا کر لائے ہیں۔
کابینہ میں ردوبدل دکھاوے کے سوا کچھ نہیں اس حکومت اور ان وزیروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ جلد یا بدیر پارلیمان کے اندر سے تبدیلی لانی پڑے گی۔ مگر سب سے اہم تبدیلی جس کی اس قوم کو ضرورت ہے وہ نظام کی ہے۔