پاکستان کی سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی متنازع ویڈیو سے متعلق پٹیشنز خارج کرتے ہوئے فیصلہ میں ویڈیو کی جانچ کے لیے فورم، اس کے نواز شریف کیس اور جج کے مستقبل پر پر اثرات، اور جج کے رویے کو دیکھنے کے لیے فورم سے متعلق سوالات اٹھائے ہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جمعے کی صبح مختصر فیصلے کا اعلان کیا۔ انہوں نے میڈیا اور فریقین کو تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دیکھنے کی ہدایت کی۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی طرف سے گذشتہ مہینے ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی۔ جس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس میں دباؤ کے تحت سزا سنانے کا اعتراف کرتے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ تاہم احتساب عدالت کے جج ارشد ملک اس کی تردید کرتے ہیں۔
مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے بعد میں جج ارشد ملک سے متعلق پہلی ویڈیو کی صحت ثابت کرنے کے لیے دو مزید ویڈیوز بھی جاری کیں۔
تین مختلف رٹ پٹیشنز کے ذریعے سپریم کورٹ آف پاکستان کی توجہ ان ویڈیوز کی طرف دلوائی گئی۔ پٹیشنز کی سماعت تین رکنی بنچ نے کی جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال شامل تھے۔
سپریم کورٹ نے پانچ صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا: ایسے وقت میں کہ جب ویڈیو سکینڈل کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے تو سپریم کورٹ کے لیے اس سٹیج پر مناسب نہیں کہ اس میں مخل ہو۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیوز کی ایف آئی اے بھی تحقیقات کر رہی ہے۔
فیصلے کے مطابق ارشد ملک کی ویڈیوز نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس میں اس وقت تک مددگار ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک انہیں عدالت میں پیش کیے گئے شواہد کا حصہ نہ بنایا جائے۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے مندرجہ ذیل پانچ سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ اور ان کے جوابات بھی دئیے۔
1۔ کیا ویڈیو مستند ہے؟
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سائنس کے اس ترقی کے زمانے میں کسی بھی ویڈیو کی صحت سے متعلق بہت آسانی سے پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
2۔ اگر مستند ہے تو یہ کسی عدالت کے سامنے شہادت کے طور پر کیسے پیش کی جا سکے گی؟
سپریم کورٹ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے قانون شہادت کا جدید آلات کی مدد حاصل ہونے والے مواد سے متعلق حصہ نقل کیا۔ اس سلسلے میں فیصلے میں کئی کیسز کا حوالہ بھی دیا گیا اور وضاحت کی گئی کہ جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو کسی عدالت میں کس طرح شہادت کا حصہ بن سکتی ہے۔
3۔ اگر مستند ہے تو نواز شریف کیس میں کس عدالت کے سامنے پیش ہو گی؟
اس سلسلے میں فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چونکہ العزیزیہ ریفرنس کے خلاف اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے تو ویڈیو اسلام آباد ہائی کورٹ کا متعلقہ بنچ کے سامنے ہی پیش کی جا سکتی ہے۔
3۔ ویڈیو کا نواز شریف کے کیس پر کیا اثر ہو گا ؟
فیصلے کے مطابق اگر العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے خلاف اپیل سننے والی اسلام آباد ہائی کورٹ سمجھتی ہے کہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ جج کے رویے سے متاثر ہوا تو ساری شہادتوں کو دوبارہ سے دیکھ کر دوبارہ سے کسی فیصلے پر پہنچ سکتی ہے۔
5۔ جج ارشد ملک کا رویہ؟
اس سلسلے میں فیصلے میں سپریم کورٹ کے ججوں نے ارشد ملک کے رویے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ملک میں بہت سے محنتی، ایماندار، غریب اور سچے ججوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
فیصلے میں اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت کو یقین دہانی کا ذکر کیا گیا کہ جج ارشد ملک کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی شروع کر دی گئی ہے۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اعلان کیا تھا کہ حکومت ویڈیو کا فارنزک کروائے گی تاہم اگلے دو روز کے دوران ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو دل کی تکلیف کے باعث اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ جس دوران دوسرے حکومتی اہلکاروں نے ویڈیو کے تنازع کو عدالتی معاملہ قرار دیتے ہوئے اس کو عدالت کی صوابدید پر چھوڑنے کا حکومتی فیصلہ سنایا تھا۔
سابق سینئیر پولیس آفیسر اور جرائم سے متعلق سائنس کے ماہر شعیب سڈل کے مطابق: کسی بھی ویڈیو کا فارنزک زیادہ سے زیادہ تین دن میں ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ یہ سہولت پاکستان میں موجود ہے۔ اور غیر ملکی اداروں سے فارنزک کروانے کی صورت میں ایک ہفتہ بھی لگ سکتا ہے۔
شعیب سڈل نے کہا کہ فارنزک کے ذریعے کسی ویڈیو کی صحت کی جانچ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سپریم کورٹ کے وکیل عارف چوہدری نے کہا کہ اس کیس میں وہ سپریم کورٹ سے بہت زیادہ توقع کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جج ارشد ملک ایک اہم کیس سن رہا تھا۔ اور اس دوران وہ سفر بھی کر رہا ہے اور مجرم اور ملزم سمیت تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھی ملاقاتیں کر رہا ہے۔
عارف چوہدری نے سوال اٹھایا کہ ایسے میں ملک کی خفیہ ایجنسیز کیا کر رہی تھیں؟ انہیں اتنا اہم کیس سننے والے جج کی ان حرکات و سکنات کا علم کیوں نہیں ہو پایا؟
انہوں نے کہا کہ مریم نواز کے بجائے یہ ویڈیوز خفیہ ایجنسیز کو پہلے ملنا چاہیے تھیں جو وہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان تک پہنچاتیں۔
ان کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ کو ان پٹیشنز میں خفیہ ایجنسیز کے کردار اور کارکردگی پر بھی بحث کرنا چاہیے تھی۔
عارف چوہدری کا کہنا تھا کہ ویڈیو کو العزیزیہ ریفرنس کی اپیل میں شواہد کا حصہ بنانا ایک مشکل کام ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے مریم نواز کو ان ویڈیوز کی ملکیت لینا ہو گی۔ پھر ان کی فارنزک کروا کر عدالت میں پیش کرنا ہوں گی۔
سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل کے مطابق جسٹس ملک قیوم کے کیس میں ویڈیو کے مستند ہونے پر کوئی سوال نہیں تھا اسی لیے اسے بڑی آسانی سے شواہد کا حصہ بنا لیا گیا تھا۔
عارف چوہدری کے مطابق: چیف جسٹس نے خود کہا ہے کہ ان کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ ایسے میں جج ارشد ملک کے خلاف سنجیدگی سے کاروائی ہونا مانگتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جج ارشد ملک کو نہ صرف نوکری سے ہٹانا چاہیے بلکہ ان کے خلاف کسی حکومتی ایجنسی سے کرپشن کی تحقیقات کا حکم بھی آنا چاہیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر نے کہا کہ اعلی عدلیہ کی طرز پر ماتحت عدلیہ کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل جیسا کوئی ادارہ نہیں ہوتا۔
بلکہ کسی جج کے خلاف کرپشن کی کارروائی متعلقہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایک جج مقرر کر کے کرواتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماتحت عدلیہ سے تعلق رکھنے والے جج کے خلاف کاروائی اسی طرح ہو گی جس طرح ایک سرکاری اہلکار کے خلاف ہوتی ہے۔