وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کپتان کا مقصد ہرحال میں میچ جیتنا ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ ضرورت پڑنے پر اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھی تبدیل کرتا اور ان کا بیٹنگ آرڈر بھی بدلتا ہے۔
’میرا مقصد پاکستان کے غریب اور پسے ہوئے طبقے کو اوپر اٹھانا اور میں اس مقصد میں کامیابی کے لیے ضرورت کے مطابق اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کی ذمہ داریوں یا ان کھلاڑیوں ہی کو تبدیل کرتا رہوں گا۔‘
ان خیالات کا اظہار انھوں نے وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے ایک روز بعد جمعہ کو ضلع اورکزئی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے خصوصی طور پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور وزیر اعلی پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اپنی صوبائی ٹیموں پر نظر رکھیں۔ ’اللہ نے ہمارے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ڈالی ہے اور ہمیں صرف اس ذمہ داری کے تقاضوں کی فکر کرنی چاہیے لہذا جو وزیر پرفارمنس نہیں دے رہا، اسے تبدیل کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں ہو نا چاہیئے۔‘
ادھر، وفاقی کابینہ میں ردوبدل کے بعد کابینہ ڈویژن نے 47 ورزراء پر مشتمل وفاقی کابینہ کی نئی فہرست جاری کر دی ہے ۔ کابینہ ڈویژن سے جاری کردہ تازہ ترین فہرست کے مطابق 25 وفاقی وزراء، پانچ وزراء مملکت، چار وزیراعظم کے مشیر جبکہ 13معاونین خصوصی وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔
وفاقی کا بینہ میں نئے شامل ہونے والے کابینہ اراکین میں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، معاون خصوصی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈنیشن ڈاکٹر ظفراللہ مرزا، معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ڈویژن ندیم بابر شامل ہیں جبکہ قلمدان تبدیل ہونے والے وزراء میں چوہدری فواد حسین، غلام سرورخان اورشہریار آفریدی شامل ہیں جبکہ وزیر خزانہ اسد عمر خود گذشتہ روز وفاقی کابینہ سے الگ ہوگئے تھے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آصف زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف کے خاندانوں نے ملکی دولت لوٹ کر اربوں کے اثاثے بنائے اور ان کے سامنے آئے روز ان کی کرپشن کے قصے بےنقاب ہو رہے ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ اگر عمران خان دو سال بھی وزیر اعظم رہا تو وہ جیلوں میں ہوں گے اور ان کا لوٹا ہوا پیسہ ملک کے خزانے میں واپس ہوگا، اسے لیے وہ حکومت گرانے کی بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک تاریخ کے مشکل ترین معاشی مرحلے سے گزر رہا ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں اوسطاً ہر دن کے حساب سے قرضوں پر صرف سود کی مد میں ساڑھے چھ ارب روپے ادا کرنے پڑ رہے ہیں اور یہ صورتحال پی پی پی اور (ن) لیگ کے ادوار حکومت کی دین ہے جنہوں نے ملک کا قرضہ چھ ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے تک پہنچا دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران خان نے افغانستان کے حوالے سے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغان حکومت کو کوئی مشورہ تو نہیں دیتے کیونکہ وہ ان کے مشورے کو اپنے معاملات میں مداخلت سمجھتے ہیں تاہم ان کی دلی دعا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو کیونکہ امن قائم ہونے سے افغان عوام کے حالات زندگی بہتر ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن قائم ہو جائے تو وہ وہاں کینسر ہسپتال کی تعمیر کا جائزہ لیں گے۔
انھوں نے اس موقعہ پر پی ٹی ایم کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ان کے مطالبات جائز ہیں تاہم ان کا طریقہ کار غلط ہےآ انھوں نے کہا کہ قبائلی عوام کو فوج کے خلاف اکسا کر نہ پاکستان کی خدمت ہو سکتی ہے نہ قبائلی باشندوں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ’ہم نے آگے کی طرف دیکھنا ہے، قبائلی اضلاع کو اوپر اٹھانے کی حکمت عملی وضع کرنی ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی ایم ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے حکومت کے ساتھ مل کر قبائلی باشندوں کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان کے مسائل و مشکلات حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔