لاپتہ افراد لواحقین دھرنا ختم، مذاکرات کریں: ڈی سی تربت

مظاہرین ایک بار پھر دھرنا دیتے ہوئے تربت کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے اپنے رشتہ داروں کی بازیابی کے مطالبات والے پلے کارڈ اور بینرز اٹھائے سراپا احتجاج ہیں۔

حال ہی میں لاپتہ افراد کے لواحقین لانگ مارچ کرتے ہوئے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت پہنچ گئے اور دھرنے کی شکل اختیار کی (مبارک علی)

بلوچستان کے دور دراز دیہی علاقوں کے مبینہ طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین ایک بار پھر سے تربت میں ان کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔

اس احتجاج میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچیاں شامل ہیں اور یہ مظاہرین ایک بار پھر تربت کے ایک اہم انتظامی دفتر کے سامنے رشتہ داروں کی بازیابی کے مطالبات والے پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے سراپا احتجاج ہیں۔

بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ ایک دیرینہ اور سنگین مسئلہ ہے۔ اس کو وقتاً فوقتاً مختلف فورمز، دھرنوں اور مظاہروں کے ذریعے لواحقین اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اٹھایا گیا مگر بقول متاثرہ خاندانوں کے ان کی دادرسی نہیں ہوئی ہے۔

تربت کے حالیہ دھرنے کے شرکا میں کم و بیش 10 سے 11 متاثرہ خاندان کے لواحقین ضلعی ہیڈکوارٹر پہنچے ہیں۔ وہ گذشتہ دو دنوں سے ڈپٹی کمشنر تربت کے دفتر کے سامنے دھرنے پہ بیٹھے ہیں۔

گذشتہ دنوں لاپتہ افراد کے لواحقین لانگ مارچ کرتے ہوئے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت پہنچ گئے اور دھرنے کی شکل اختیار کی۔

دھرنے میں مبینہ طور پر لاپتہ افراد مسلم عارف، حاصل فقیرداد، جان محمد، شہزاد عبید، عبدالوھاب، فاروق سخیداد و دیگر کے لواحقین دھرنے میں شریک ہیں۔

دھرنے میں بلیدہ سے تعلق رکھنے والے لاپتہ جان محمد کی 11 سالہ بیٹی کا کہنا ہے کہ ان کے والد 2013 سے لاپتہ ہیں۔

’میں ابھی تک باپ کی شفت کی سے محروم ہوں، میرے والد کو بازیاب کیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دھرنا کے شرکا نے انڈپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں بتایا جائے کہ ہمارے پیارے کہاں ہیں، اگر کسی پر کوئی الزام ہے انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔‘  

احتجاج کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر تربت اسماعیل ابراہیم نے انڈپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ضلعی انتظامیہ نے ہمیشہ آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے ہر شہری کو سنا ہے، اور ہم ان متاثرہ خاندانوں کو بھی سننے کے لیے تیار ہیں مگر سب سے پہلے وہ اپنا دھرنا ختم کریں اپنی ایک کمیٹی بنائیں اور ہم اس کمیٹی کے ساتھ بیٹھیں گے، ان کو  تسلی سے سنیں گے اور ان کے تحفظات کو دور کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’مظاہرین یہ دھرنا ختم کریں، ہمیں چار سے پانچ دن دے دیں، اس طرح نظام کو مفلوج بنانا ٹھیک نہیں ہے، وہ مذاکرات کے لیے ٹیبل پر آجائیں۔‘

اس حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر تربت حسیب شجاع  دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کے لیے گئے مگر مذکرات ناکام رہے۔ شرکا کا کہنا ہے کہ جب تک مثبت پیش رفت نہیں ہوگی وہ دھرنے کو ختم نہیں کریں گے۔ 

لاپتہ  افراد کی  بازیابی ے لیے کام کرنے والی تنظیم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے مطابق لاپتہ افراد کی تعداد سات ہزار کے قریب ہے تاہم حکومت اس اعداد و شمار سے متفق نہیں ہے۔

حال ہی میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلی عبدالقدوس بزنجو نے اپنے ایک انٹرویو میں دعوی کیا تھا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد سو سے زیادہ نہیں ہے۔

لاپتہ افراد  کے لیے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق  بلوچستان سے 2752 شہریوں کی جبری گمشدگی کے کیسز موصول ہوئے ہیں۔

اس سے پہلے بھی لاپتہ افراد کی مکمل بازیابی و منظر عام پر لانے کے لیے صوبے کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج ہوئے۔

مظاہرین مطالبات لے کر شہر اقتدار کی جانب لانگ مارچ کرتے ہوئے ایک مہینے سے زائد اسلام اباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دیتے رہے۔

اس سے قبل بھی ماما قدیر بلوچ نے بھی کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام اباد تک  ہزاروں کلومیٹرکا پیدل مارچ کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان