پنجاب کے محکمہ خزانہ نے دو دسمبر 2024 سے سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی پنشن میں سالانہ اضافہ ختم کردیا ہے جب کہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے والوں کی پینشن بھی دو سے 10فیصد تک کم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔
تاہم سرکاری ملازمین نے صوبائی حکومت کے اس اقدام کو مسترد کر دیا ہے۔
آل پاکستان گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس کے ایڈیشنل سیکریٹری رانا لیاقت علی نے کہا ہے کہ ’حکومت اپنے شاہانہ اخراجات کم کرے اور سالوں محنت کرنے والے سرکاری ملازمین کی پنشن پر شب خون نہ مارے۔‘
اس فیصلے کے خلاف اگلے ہفتے ملازمین کی تمام تنظیموں کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
محکمہ خزانہ پنجاب کے سیکریٹری مجاہد شیر دل کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ’یکم دسمبر سے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن نئے قانون کے مطابق ملے گی اور اس میں 2011 کے بعد ہونے والا سالانہ اضافہ بھی واپس لیا جا رہا ہے۔‘
اس حوالے سے محکمہ خزانہ پنجاب کے حکام کا کہنا ہے کہ ’انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے مطابق وفاقی حکومت کی ہدایت پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ جس کے تحت پنشن میں اضافہ روک دیا گیا بلکہ ماضی میں ہونے والا اضافہ بھی واپس لے لیا گیا ہے اور پنشن میں کمی کا اطلاق دو دسمبر سے ہو گا۔‘
حکومت پنجاب کی جانب سے پہلے ہی اس بارے میں قانون بنا دیا گیا تھا جس کا اطلاق رواں سال جولائی سے ہونا تھا مگر تاخیر کے باعث اب دو دسمبر سے اسے لاگو کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔
پینشن میں کمی کا فارمولہ اور سرکاری ملازمین کا ردعمل
وزارت خزانہ پنجاب کی جانب سے تمام صوبائی محکموں کو مراسلہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق پنشن میں اضافے پر بندش کا آغاز منگل دو دسمبر سے ریٹائر ہونے والے سرکاری ملازمین پر ہو گیا ہے۔
سیکریٹری محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری مراسلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے 2011 ,2015 اور 2022 میں پنشنز میں جو اضافہ کیا گیا تھا وہ واپس لے لیا گیا ہے لہذا تمام صوبائی محکموں کے سربراہان کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ دو دسمبر 2024 سے ریٹائر ہونے والے تمام سرکاری ملازمین کی پنشن نئے قانون کے تحت دستاویزی اقدامات کریں اور اس کی رپورٹ محکمہ خزانہ کو پیش کریں۔
صوبائی محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر بھی پنشن میں کمی کی جائے گی۔
نوٹیفکیشن کے مطابق سرکاری ملازمین کی ریٹائر ہونے کی عمر 60 سال ہے۔ سکیل ایک سے 22 تک کوئی بھی سرکاری ملازم اگر 55 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لے گا تو اس کی پنشن میں 10 فیصد، 56 سال کی عمر میں آٹھ فیصد، 57 سال کی عمر تک چھ فیصد، 58 سال کی عمر میں چار جب کہ 59 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کی درخواست دینے والوں کی پنشن دو فیصد کم کی جائے گی۔ یہ تناسب ریٹائرمنٹ کے وقت ملنے والی اکھٹی رقم پر بھی کم کیا جائے گا۔
محکمہ خزانہ پنجاب کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وفاقی حکومت کی ہدایت پر آئی ایم ایف نے پنشنرز کے لیے جو ضابطہ طے کیا ہے اس پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ یہ قانون سازی پنجاب حکومت پہلے ہی کر چکی ہے جس پر رواں سال جولائی میں عمل ہونا تھا لیکن بعض دستاویزی مسائل کی وجہ سے تاخیر ہوئی ہے۔ ‘
انہوں نے مزید بتایا کہ نئے قانون کے مطابق پنشنرز کو ان کی اور ان کی اہلیہ کی زندگی تک ہی پنشن ملے گی دونوں کی وفات کے بعد ان کے بچوں کو پینشن نہیں مل سکے گی۔ یہی ضابطہ نئے تعینات ہونے والے اور پہلے سے کام کرنے والے سرکاری ملازمین پر لاگو ہوگا۔‘
آل پاکستان ایمپلائز گرینڈ الائنس کے مرکزی ایڈیشنل سیکریٹری رانا لیاقت علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سرکاری ملازمین 20 سے 25 سال نوکری اس امید پر کرتے ہیں کہ انہیں ریٹائرمنٹ کے وقت ملنے والی اکھٹی رقم سے وہ بچوں کی شادیاں، گھر کی تعمیر، عمرہ یا حج کے لیے رقم مل جائے گی لیکن حکومت نے آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے سرکاری ملازمین کو مایوس کیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت اپنے سرکاری اور وزرا کے اخراجات کم کرے لیکن انہوں نے اپنے اخراجات تو کم نہیں کیے لیکن سرکاری ملازمین کی پنشن پر کلہاڑا چلا دیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پنجاب میں ایک سے 22 سکیل تک 10 لاکھ سے زائد ملازمیں ہیں جب کہ ہر سال 35 ہزار سے زائد ملازمین اور افسران ریٹائر ہوتے ہیں جن کی پینشن میں کمی کر کے حکومت نے ملازمین مخالف ہونے کا ثبوت دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس کمی سے اگر اکھٹی پینشن 30 لاکھ ملتی تھی تو اب 22 لاکھ ملے گی جب کہ 16ویں سکیل والے ملازمین کو 70 ہزار ملتے تھے تو اب انہیں 60 ہزار ملیں گے۔
رانا لیاقت کے بقول: ’مہنگائی اور بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے لیکن ہماری پینشن میں پہلے سے ہونے والا اضافہ بھی واپس لیا جارہا ہے۔ ہم اس ظالمانہ اقدام کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے، ہم نے آئندہ ہفتے صوبے بھر کی تنظیموں کا اجلاس طلب کر لیا ہے جہاں ہم اس اقدام کے خلاف مشترکہ حکمت عملی تیار کریں گے اور کسی بھی صورت اس فیصلے پر عمل نہیں ہونے دیں گے۔‘
حکومت پنجاب کا پنشنرز کے لیے بنایا گیا قانون
پنجاب سول سرونٹس اصلاحاتی ترامیمی بل 2024 پنجاب اسمبلی سے پہلے ہی پاس کرا لیا گیا تھا جو گورنر پنجاب کے دستخط کے بعد قانون بن چکا ہے۔
اس قانون کے مطابق ریٹائرمنٹ کے وقت کاؤنٹ کی جانے والی خالص پنشن کو بیس لائن پنشن کہا جائے گا۔ پینشن میں کوئی بھی اضافہ بیس لائن پنشن پر دیا جائے گا جب کہ ہر اضافے کو ایک علیحدہ رقم کے طور پر برقرار رکھا جائے گا جب تک وفاقی حکومت کسی اضافی پنشن پر نظر ثانی اور منظوری دینے کا فیصلہ نہیں کرتی۔
بیس لائن پنشن کا جائزہ ’پے اینڈ پنشن‘ کمیٹی ہر تین سال بعد لے گی بشرط یہ کہ ان ترامیم کے اجرا کی تاریخ پر موجودہ پنشنرز کی موجودہ پینشن کو بیس لائن پنشن سمجھا جائے۔
عام خاندانی پنشن، شریک حیات کی موت یا نااہلی تک ہی جاری کی جائے گی۔ کسی پنشنر کے معذور/ خصوصی بچوں کے معاملے میں، عام خاندانی پینشن ایسے بچوں کی زندگی بھر کے لیے جاری رہے گی۔ حقدار بچوں کے معاملے میں خاندانی پینشن 10 سال یا 21 سال کی عمر تک قابل قبول رہے گی۔
خصوصی خاندانی پینشن شریک حیات/ پہلے وصول کنندہ کی موت یا نااہلی کے بعد 25 سال تک اہل خانہ کے باقی ممبروں کے لیے قابل قبول ہوگی۔ پینشن وصول کنندگان کے لیے اس طرح کی پینشن کی شرح کو مسلح افواج/ سول آرمڈ فورسز کے تمام رینکوں کے لیے 50 فیصد تک بڑھا دیا جاتا ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کی صورت میں، جہاں 60 سال کی عمر کے بعد حکومت کے کسی پنشنر کو عوامی خدمت میں دوبارہ ملازمت/ تقرری کی جاتی ہے چاہے وہ مستقل ہو یا عارضی بنیاد پر ہو یا ملازمت کے کسی بھی طریقے سے، پنشنر کے پاس اپنی پنشن برقرار رکھنے یا اس ملازمت کے دوران مذکورہ ملازمت کی تنخواہ لینے کا اختیار ہوگا۔