ایک روبوٹ کام پر 'مردہ' پایا گیا لیکن کوئی نہیں جانتا یہ کیسے ہوا؟

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ روبوٹ نسل کی پہلی خودکشی ہے جس نے مبینہ طور پر جان بوجھ کر اپنے کام سے مایوس ہونے کے بعد خود کو سیڑھیوں سے نیچے دھکیل دیا۔

پانچ نومبر 2024 کو شمال مغربی فرانس کے لی ہاورے میں ایک سپر مارکیٹ میں ایک گاہک ’ونڈی‘ نامی سکیورٹی گارڈ روبوٹ کے قریب سے گزر رہی ہیں (اے ایف پی)

کیا یہ ایک تکنیکی غلطی تھی یا جان بوجھ کر خود کی جان  لینے کا عمل؟ یہ وہ سوال ہے جو جنوبی کوریا میں گومی سٹی کونسل کے کارکنوں نے رواں سال کے آغاز میں اس وقت اٹھائے تھے جب ان کا ایک ساتھی دو میٹر لمبی سیڑھی کے نیچے سے ’مردہ‘ حالت میں پایا گیا تھا۔

اس واقعے کو مقامی میڈیا میں ان شہ سرخیوں میں پوچھا گیا کہ ’محنتی سول افسر نے ایسا کیوں کیا؟‘ اور ’کیا یہ کام بہت مشکل تھا؟‘

متاثرہ کارکن کے لیے سوشل میڈیا پر بھی ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔ ایک سرکاری کارکن جس کے حقیقت میں ایک روبوٹ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی دلچسپی بڑھ گئی تھی۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ روبوٹ نسل کی پہلی خودکشی ہے جس نے مبینہ طور پر جان بوجھ کر اپنے کام سے مایوس ہونے کے بعد خود کو سیڑھیوں سے نیچے دھکیل دیا۔

عینی شاہدین نے اسے گرنے سے کچھ دیر پہلے ایک جگہ پر چکر لگاتے ہوئے دیکھا تھا جس کی وجہ سے ان قیاس آرائیوں نے جنم لیا کہ وہ ’جذباتی خرابی‘ کا شکار تھا۔

لیکن جان بوجھ کر خود کو مارنے کے لیے روبوٹ کو سب سے پہلے (انسانوں کی طرح) حساس ہونا پڑے گا۔ یہ ایک ایسا خیال ہے جو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے سائنس فکشن فلموں اور سریز میں دکھایا جاتا رہا ہے لیکن صرف حالیہ دہائیوں میں ہی ٹیکنالوجی کے ماہرین اور فلسفی ماہرین نے سنجیدگی سے قیاس آرائیاں کرنا شروع کر دی ہیں کہ ایسا حقیقت میں کب اور کیسے سامنے آ سکتا ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس میں فلسفے کے پروفیسر اور  The Edge of Sentience: Risk and Precaution in Humans, Other Animals, and AI نامی کتاب کے مصنف جوناتھن برچ کا خیال ہے کہ ہم ایسا بہت جلد دیکھیں گے جسے وہ ’مبہم جذباتی‘ مصنوعی ذہانت کہتے ہیں۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’مبہم طور پر جذباتی ہونے سے میرا مطلب ہے کہ کچھ لوگ اس بات پر پوری طرح قائل ہوں گے کہ ان کا اے آئی ساتھی ایک بھرپور زندگی کے ساتھ جذبات رکھنے والی ہستی ہے اور جب دوسرے اس سے انکار کریں گے تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ دریں اثنا دوسرے افراد کو بھی اتنا ہی یقین ہو جائے گا کہ یہ اے آئی مشینیں بالکل کچھ محسوس نہیں کرتی ہیں۔‘

ان کے بقول: ’یہ بتانا ممکن نہیں ہوگا کہ کون صحیح ہے کیونکہ ہمارے جذبات کی سائنسی فہم یہ سمجھنے کے لیے ابھی اتنی پختہ نہیں ہوئی ہے اور یہ بہت سنگین سماجی تقسیم کا باعث بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ُ

ایسی صورت حال کی تیاری کے لیے پروفیسر برچ نے ٹیکنالوجی کمپنیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس خطرے کو تسلیم کریں اور ایسی تحقیق میں مدد کریں جس کا مقصد ہماری سائنسی تفہیم کو بہتر بنانا ہو۔

روبوٹ ورکر کی موت کے بعد جنوبی کوریا میں اٹھنے والی بحث کا مرکز مصنوعی ذہانت اور مشینوں کے انسانی کام کی جگہوں میں انضمام پر تھا اور کیا ان مشینوں کو اپنے گوشت پوشت والے ساتھیوں کی طرح کے حقوق ملنے چاہئیں۔

یہ سوالات ایک ایسے ملک میں اٹھائے جا رہے ہیں جہاں زمین پر کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں آٹومیشن سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ہو رہا ہے۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف روبوٹکس (آئی ایف آر) کی گذشتہ ماہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ جنوبی کوریا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے اپنی صنعتی افرادی قوت کے 10 فیصد سے زیادہ کو روبوٹس سے بدل دیا ہے۔ صرف ایک اور ملک نے بھی پانچ فیصد تک ایسا ہی کیا ہے۔

ریستوران کے کچن سے لے کر ہسپتال کے آپریٹنگ تھیٹرز تک، جنوبی کوریا میں روبوٹ ہر جگہ کام تلاش کر رہے ہیں۔ کوریا کی حکومت ان ذہین مشینوں کو ریکارڈ کم شرح پیدائش اور تیزی سے سکڑتی ہوئی کام کرنے کی عمر والی آبادی سے نمٹنے کے طریقے کے طور پر دیکھتی ہے تاہم روبوٹ کی بڑے پیمانے پر آمد نے نئے چیلنجز کو بھی جنم دیا ہے اور وہ یہ کہ ان کا بہترین استعمال اور انضمام کیسے کیا جائے۔

یہاں تک کہ اگر یہ مشینیں ابھی تک باشعور نہیں ہیں اور انہیں خود کا کوئی احساس نہیں ہے تو بھی بہت سے لوگ پہلے ہی انہیں کسی قسم کی نیم شعوری مخلوق کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو ایک حد تک عزت اور وقار کے مستحق ہیں۔ یہ معاملہ پچھلے سال ایک ویڈیو کے ردعمل سے نمایاں ہوا جس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک روبوٹ بکسوں کو سجاتے ہوئے اچانک زمین پر گر جاتا ہے۔

روبوٹ کے مینوفیکچرر نے کہا کہ یہ ایک عام خرابی تھی لیکن اس کلپ نے لاکھوں ویووز حاصل کیے کیونکہ لوگوں نے یہ قیاس کیا کہ آیا یہ درحقیقت اس روبوٹ کی سرکشی تھی یا یہ تھکن کا نتیجہ تھا۔

ایک شخص نے لکھا: ’یہ ہم سب کی طرح تناؤ کا شکار ہے۔‘ جب کہ ایک دوسرے صارف نے تبصرہ کیا: ’مصنوعی ذہانت اپنے فیصلے خود کرتا ہے اور مجھے اس کی مرضی پسند ہے۔‘

جنوبی کوریا کے سٹی ہال میں پیش آنے والے واقعے کے بعد سے روبوٹس کے خود کو مارنے کے متعدد دیگر واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ ماہ ’مین ورسیز مشین‘ کے نام سے منعقد ایک ایونٹ کا مقصد ایک انسانی ڈرائیور کے ساتھ مصنوعی ذہانت سے چلنے والی کار کی دوڑ لگانا تھا لیکن جاپان میں یہ مقابلہ کبھی نہیں ہوا کیوں کہ روبوٹ ریسر سٹارٹ لائن کے راستے کی رکاوٹ میں گھس گیا۔ اس پر کچھ تماشائیوں نے مذاق اڑایا کہ اے آئی اس ڈرائیور کی طرح خطرے کا سامنا کرنے کے بجائے خود کو دوڑ سے باہر کر دے گا جسے کبھی اپنی لاپرواہی سے ڈرائیونگ کے لیے ’ٹارپیڈو‘ کہا جاتا تھا۔

جہاں تک جنوبی کوریا میں روبوٹ کا تعلق ہے جس کا انجام سیڑھیوں کے نچلے ختم ہوا، اس کے ساتھ کیا ہوا اس کا تیسرا امکان بھی ہے جیسا کہ میونسپل ورکرز اور میڈیا یہ بتانے میں ہچکچاتے نظر آتے ہیں کہ ہو سکتا ہے اسے دھکا دیا گیا ہو۔

گذشتہ ہفتے آئی ایف آر کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ عالمی سطح پر روبوٹ کی اوسط موجودگی گذشتہ سات سالوں میں دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ جیسا کہ یہ رجحان مصنوعی ذہانت میں ترقی کے ساتھ ساتھ تیز تر ہوتا جا رہا ہے، ہمیں تیزی سے اس بات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ہم اپنے روبوٹ کے ساتھ مل کر کیسے بہترین زندگی گزاریں اور کام کریں۔

دنیا میں سب سے زیادہ روبوٹس استعمال کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک  کے طور پر ایمازون نے انہیں کام کی جگہ میں ضم کرنے کے طریقوں پر کام کرتے ہوئے ایک دہائی سے زیادہ وقت گزارا ہے۔ 750,000 سے زیادہ مشینوں کے عملے کے ساتھ دنیا بھر میں 15 لاکھ انسانی ملازمین کے ساتھ روبوٹس پہلے ہی ایمازون میں کام کر رہے ہیں جو اس ریٹیلر کمپنی کی افرادی قوت کا ایک تہائی حصہ ہے۔

کمپنی کے پہلے مکمل طور پر خود مختار روبوٹ ’پروٹیس‘ کمپنی کے گوداموں میں کام کرتے تھے اب انہیں باہر کی باڑ والے علاقوں میں گھومنے کی اجازت دی گئی ہے جہاں روبوٹس کو پہلے آنے کی اجازت نہیں تھی۔ انسانی کارکنوں کے ساتھ اس نئے کردار کا مطلب یہ ہے کہ روبوٹس کو ایسا بنانے پر غور کیا جا رہا ہے کہ یہ زیادہ پریشان کا باعث نہ بنیں۔

ایمیزون روبوٹکس کی ایک ڈائریکٹر جولی مچل نے کمپنی کے تکمیلی مراکز میں سے ایک کے حالیہ دورے کے دوران صحافیوں کو بتایا: ’ہم پروٹیوس کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی