سپریم کورٹ: نو مئی تحقیقات کی درخواستِ منظور، عمران خان کی جیل تبدیلی مسترد

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی نومئی کے واقعات کی جوڈیشل تحقیقات کی درخواست باضابطہ سماعت کے لیے منظور کر لی۔

نو مئی 2023 کو کراچی کی ایک سڑک پر اشتعال انگیزی کا ایک منظر (اے ایف پی)

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی نومئی کے واقعات کی جوڈیشل تحقیقات کی درخواست باضابطہ سماعت کے لیے منظور کر لی جبکہ عمران خان کی اڈیالہ جیل سے خیبر پختونخوا جیل منتقلی کی عام شہری قیوم خان کی درخواست 20 ہزار جرمانے کے ساتھ خارج کر دی ہے۔

سپریم کورٹ میں منگل کو آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں عمران خان سے متعلق اہم مقدمات کی سماعت کی۔

بینچ میں دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

نو مئی جوڈیشل تحقیقات کیس

آئینی بینچ نے نو مئی کی جوڈیشل تحقیقات کے لیے عمران خان کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کر دیے۔

عدالت نے رجسٹرار آٖفس کو درخواست پر نمبر لگاکر دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کر دی۔

عمران خان کی جانب سے وکیل حامد خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ ’ڈیڑھ سال ہوچکا ہے، پتہ تو کرالیں کہ نو مئی کو ہوا کیا تھا، ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا لگا ہوا ہے، احتجاج کرنے پر فوج طلب کرلی جاتی ہے۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ’مارشل لا میں وہ خود آتے ہیں طلب نہیں کیے جاتے۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فوج تو آرٹیکل 245 کے تحت طلب ہوتی ہے، اگر آپ اسے مارشل لا کہتے ہیں تو پھر آرٹیکل 245 کو بھی چیلنج کریں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے بھی حامد خان کے دلائل پر ریمارکس دیے کہ ’آپ مارشل لا کہہ کرکے سوئپنگ سٹیٹمنٹ دے رہے ہیں، کیا کسی اتھارٹی کا کوئی ایسا حکم موجود ہے جسے آپ چیلنج کر رہے ہیں۔‘

حامد خان نے کہا کہ ’نو مئی کے بعد سینکڑوں ایف آئی آرز ہوئیں، ایک پارٹی کو دیوار سے لگا دیا گیا۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’آپ نے ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہ کیا؟‘

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ کسی صوبے کا نہیں پورے ملک کا معاملہ ہے، اسی لیے سپریم کورٹ آئے، رجسٹرار آفس اعتراض لگا رہا ہے کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہی نہیں۔‘

جسٹس امین الدین نے کہا کہ ’آپ ٹھوس وجہ بتائیں، بادی النظر میں تو رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور نہیں ہونے چاہییں۔‘

حامد خان نے جواباً کہا کہ ’آپ اعتراضات دور کرکے میرٹ پر سنیں تو میں عدالت کو مطمئن کروں گا۔‘

عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرتے ہوئے کہا کہ ’کیس دوبارہ لگنے پر آپ کو ہمیں اٹھائے گئے سوالات پر مطمئن کرنا ہو گا۔‘

25 مئی 2023 کو بانی پی ٹی آئی عمران خان نے نو مئی سانحہ کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ نو مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جبری علیحدگیوں کو غیر آئینی قرار دے۔

رجسٹرار سپریم کورٹ مفاد عامہ کا معاملہ نہ ہونے کا اعتراض لگایا تھا۔

عمران خان کی جیل تبدیل کرنے کی درخواست

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران خان کو اڈیالہ جیل سے خیبر پختونخوا کی جیل میں منتقل کرنے کی عام شہری قیوم خان کی درخواست جرمانے کے ساتھ آئینی بینچ نے خارج کی تو بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر نے درخواست گزار سے کہا کہ ’عمران خان کو کوئی مسئلہ ہوگا تو خود درخواست دے دیں گے، بانی پی ٹی آئی کے تین وکلا آج بھی عدالت میں تھے، کسی وکیل نے ایسی کوئی درخواست نہیں دی۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’قیدی کے اہل خانہ یا وہ خود ایسی درخواستیں دے سکتے ہیں۔‘

درخواست گزار قیوم خان نے عدالت میں کہا کہ ’یہ قومی مسئلہ ہے کسی کی ذات کا نہیں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’قومی مسائل آپ رکن اسمبلی بن کر سوچیے گا۔‘

نوٹس کیا تو عمران خان کو عدالت پیش کرنا پڑے گا: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی حکومتی درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ ’کیا حکومت اس کیس کو چلانا چاہتی ہے کیونکہ ’اگر عدالت نے نوٹس کیا تو عمران خان کو عدالت میں پیش کرنا پڑے گا۔‘

جسٹس امین الدین خان کے استفسار پر کہ ’کیا حکومت اس کیس کو چلانا چاہتی ہے؟‘

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے عدالت کو بتایا کہ ’حکومت سنجیدگی سے درخواست کی پیروی کرے گی۔ عمران خان نے 25 مئی 2022 کے لانگ مارچ میں عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی تھی اور اسلام آباد میں جلاؤ گھیراؤ کیا تھا۔‘

عمران خان کو نوٹس ہونے کی صورت میں عدالت میں پیش کرنے کے حوالے سے عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو حکومت سے ہدایات لینے کی ہدایت کر دی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے، آپ کیوں جذباتی ہو رہے ہیں، عدالت آپ کو راستہ دکھا رہی ہے۔‘

وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی جانب سے جواب جمع کروا دیا ہے، عدالت کا زبانی حکم اس وقت عمران خان تک نہیں پہنچ سکا تھا، موبائل سروس کی بندش کے باعث وکلاء کا رابطہ نہیں ہو سکا تھا۔‘

سپریم کورٹ نے 25 مئی 2022 کے عدالتی حکم میں عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے ایچ-نائن اور جی-نائن کے درمیان پشاور موڑ کے قریب ’آزادی مارچ‘ کے انعقاد سے روکا تھا تاکہ سری نگر ہائی وے بند ہو کر عام شہری تکلیف سے نہ گزریں، تاہم عمران خان اور ان کے حامیوں نے عدالتی احکامات کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک کا رخ کیا تھا۔

جس کے بعد توہین عدالت کی درخواست اس وقت پی ڈی ایم حکومت نے دائر کی تھی جس کی سماعت سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی تھی اور 25 مئی کے واقعات پر عمران خان سے رپورٹ طلب کی تھی۔

آئینی بنچ نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان