کیا آپ نے لاہور کی مال روڈ پر نصب الفریڈ کوپر وولنر کے مجسمے کو دیکھا ہے؟ بے نیازی سے نہیں بلکہ شوق کی نگاہ سے۔
ایسے کہ آپ پر سنسکرت کے اس طویل قامت عالم کے حقیقی خدوخال کھلنے لگے ہوں؟ اگرآپ سنگ تراشی اور مجسمہ سازی سے دل چسپی رکھتے ہیں تو یقیناً آپ نے بہت سا وقت اس مجسمے کے اردگرد بسر کیا ہو گا۔
یہ پاکستان کی سر زمین پر مجسمہ سازی کی جدید ہیئت کا بہترین مجسمہ ہے۔ ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے پر لگتا ہے کہ آٹھ، 10 فٹ کے اس بے مثال مجسمے کے چہرے کا رنگ اس کی گردن، کان اور ہاتھوں کی انگلیوں سے یک سر جدا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
ہمارے ساتھ آئیے، گردن اوپر کر کے اس مجسمے پر نظر جمایے۔
آہستہ آہستہ یہ دردناک حقیقت سامنے آ جائے گی کہ مجسمے کے خوب صورت اور باوقار چہرے پر سیاہی کی گھنی تہہ ہے۔
جیسے کسی نے ہتک اور تضحیک آمیز غصے سے کالک کو اس کے بارونق چہرے پر مل دیا ہو یا دور سے انمٹ سیاہی کی بوتل الٹ دی ہو۔
چہرے پر موجود گہرے کالے نشانات واضح طور پر بتاتے ہیں کہ یہ کالک یا انمٹ سیاہی کی افسوس ناک یادگاریں ہیں۔
یہ قصہ کیا ہے؟ اس سے پہلے الفریڈ وولنر کے بارے میں مختصراً تعارف حاصل کر لیجیے۔
الفریڈ کوپر وولنر کا تعلق اپسوچ، سفوک سے تھا۔ وہ 1878 میں انگلستان میں پیدا ہوئے۔ الفریڈ کی تربیت فنون لطیفہ کے لطیف سائے میں ہوئی۔
ان کے چچا تھامس وولنر ( 1825-1892) معروف انگریزی شاعر اور مجسمہ ساز تھے۔ الفریڈ کے والد ہنری وولنر کا شمار بھی انگلستان کے عمدہ ظروف سازوں اور شاعروں میں ہوتا ہے۔
ٹرینیٹی کالج آکسفورڈ سے سنسکرت اور فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ 1903 میں لاہور آ گئے۔ ان کی عمر محض 24 سال تھی۔
پنجاب یونیورسٹی میں ان کی تقرری بطور پرنسپل اورینٹل کالج کالج اور رجسٹرار کے ہوئی تھی۔
ملحوظ رہے کہ جس وقت اس جواں سال پرنسپل نے اورینٹل کالج لاہور میں اپنا عہدہ سنبھالا، علامہ اقبال (اس وقت محمد اقبال) بھی بطور عربی ریڈر اس ادارے سے وابستہ تھے۔
الفریڈ کی لیاقت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پہلے ہی روز ان کی تنخواہ 500 روپے ماہانہ مقرر ہوئی۔
آنے والے برسوں میں اورینٹل کالج کا نظم و نسق درست کرنے کے علاوہ اس نے انتظامی و علمی سطح پر ان گنت خدمات سر انجام دیں۔
ان میں پنجاب یونی ورسٹی لائبریری کے باقاعدہ قیام کے علاوہ اورینٹل کالج (1925) کی موجودہ عمارت اور دارالاقامہ: وولنر ہاسٹل(1930) کی تعمیر بھی شامل ہے۔
ہیلے کالج اور ڈی مانٹمورنسی کالج کی عمارتیں بھی اسی کی محنت کی رہین ہیں۔ اس نے پنجاب یونی ورسٹی میں کھیلوں کے میدان بھی بنوائے۔
فلسفے کے شعبے کے قیام لیے حکومتی سطح پر مخلصانہ کوششیں کی۔ یاد رہے کہ اس وقت پنجاب کی حکومت دیسی لوگوں کو فلسفہ پڑھانا مضر سمجھتی تھی لیکن آخر کار الفریڈ کی کوششیں رنگ لے آئیں اور فلسفے کی تدریس کا آغاز ہو گیا۔
سرکاری سطح پر اس نے پہلی بار مڈل اور ہائی سکول کے امتحانوں میں سنسکرت کو شامل کروایا۔ لاہور میں سنسکرت کے علیحدہ سکول بھی تعمیر کروائے۔
لاہور میں موجود سنسکرت کے مؤقر اشاعتی اداروں کو پنجاب یونی ورسٹی کی تحقیقی مطبوعات سے ایسے ملحق کیا جس کی مثال پہلے کہیں نہیں ملتی۔
الفریڈ نے اپنے ذاتی خرچ سے پنجاب یونیورسٹی لائبریری کے لیے ایسے ایسے نادر نسخے، مخطوطے اور کتابیں مہیا کہیں کہ ڈاکٹر لکشمن سروپ یہ کہنے پر مجبور ہوئے: ’سنسکرت کا ایسا کتاب خانہ پورے ہندوستان میں کہیں موجود نہیں۔‘
ان ساری انتظامی خدمات کے علاوہ الفریڈ نے سنسکرت کی نہایت بلند پایہ کتابیں لکھیں۔ اس کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد چھ ہے۔ پراکرت کے تعارف اور کنڈمالا کے انگریزی ترجمے کو آج بھی جامع مانا جاتا ہے۔
الفریڈ نے لاہور کی تہذیبی تاریخ میں ٹھیٹھ سنسکرت کے ڈراموں اور ناٹکوں کو رواج دیا۔
پنجاب یونی ورسٹی کے تاریخ نگار بروس کے مطابق: لاہور کی ہزار سالہ ادبی تاریخ میں شاید پہلی بار شکنتلا اصل سنسکرت زبان میں اسی کے زمانے میں کھیلا گیا۔
’اس ڈرامے کے لیے پنجاب حکومت سے 1200 روپے بھی منظور کروائے جو اس وقت اسی خاصی رقم تھی۔‘
1935 کے دسمبر کے اواخر میں ملیریا کے ناگہانی حملے نے انہیں بے حال کر دیا اور سات جنوری، 1936 کی صبح اس کے لیے اجل کا پیغام لائی۔
ایف سی چوہدری کے مطابق اس کی آخری رسومات تین میل لمبائی تک تھیں۔ اسے جیل روڈ کے گورا قبرستان میں دفنایا گیا۔
آخری رسومات میں گورنر پنجاب سمیت اہم علمی و ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ اس کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں پنجاب یونیورسٹی نے اس کا مجسمہ بنوانے کا ارادہ کیا۔
ان کی ہر دل عزیز بیوی میری ایمیلی بلینڈ نے اس کام کے لیے رائل کالج آف آرٹ کے مجسمہ سازی کے پروفیسر اور شاہی مجسمہ ساز گلبرٹ لیڈورڈ کا انتخاب کیا۔
مجسمے پر خرچ ہونے والی 30 ہزار کی خطیر رقم انہوں نے ادا کی۔ یہ ساری معلومات تفصیل کے ساتھ راقم کی نئی تصنیف: ’الفریڈ کوپر وولنر، ایک روشن عہد‘ میں شامل ہیں۔
کتاب کی تصنیف کے دوران مجھے لاہور کے دو بزرگ اور معتبر مورخین (جنھوں نے اپنے نام اخفا میں رکھنے کی خواہش ظاہر کی ہے) نے اس افسوس ناک خبر سے آگاہ کیا کہ اس محسن کے مجسمے کے لیے لاہور ہمیشہ مہربان نہیں رہا۔
60 کی دہائی میں سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کے مشتعل ہجوم اکثر و بیشتر اس مجسمے کی توہین کرتے رہے۔
کبھی اس کے منہ پر گوبر مل دیا جاتا تو کبھی اس کے روشن چہرے کو کالک دکھائی جاتی۔
معروف ماہر تعلیم اور ادیب پروفیسر حمید خان اس مجسمے کے چاہنے والوں میں شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1958 میں وہ اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ بعد ازاں 1963 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کی وائس چانسلری بھی ان کا مقدر بنی۔
راقم سے بات چیت کرتے ہوئے معروف ادبی مورخ نے اس بات کا انکشاف کیا کہ پروفیسر حمید احمد خان نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ کیمیا کے دو نوجوان اساتذہ کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ وہ مختلف احتجاجوں کے دوران ہونے والی مجسمے کی توہین کے بعد خاموشی سے اس کی صفائی کریں اور اس پر پانی بہا دیا کریں۔
عوام کے ردعمل سے بچنے کے لیے یہ کام رات کو سر انجام دیا جاتا۔ اسی واقعے کی تائید ایک دوسرے کثیر التصانیف بزرگ مورخ نے بھی کی ہے۔
پچھلے کئی مہینوں سے راقم اس مجسمے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
حال ہی میں مجسمے پر غائر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوا ہے کہ مجسمے کا موجودہ چہرہ ان واقعات کا آئینہ دار ہے۔
تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مجسمے کے روشن آنکھوں والے چہرے پر گولائی کے رخ میں چمکتی ہوئی انمٹ کالک انڈیلی گئی ہے۔
کان کی لوؤں اور گردن کے رنگ سے کانسی سے بنے اصل مجسمے کے رنگ اور سیاہی کے درمیان بخوبی امتیاز کیا جا سکتا ہے۔
گردن کے دائیں جانب حلق کے قریب کالک کی تین لکیریں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ سر کے بالوں کے کنارے بھی اسی سیاہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
یہ بھی معروف ہے کہ آزادی کے بعد جب مال روڈ کے دوسرے مجسموں پر بلوائیوں نے حملے کیے تو یہ مجسمہ بھی زد میں آ گیا۔
چوں کہ وولنر نے اورینٹل کالج کی پرنسپلی کے زمانے میں فارسی اور مثنوی معنوی کی تدریس بھی کی تھی لہٰذا ہجوم میں سے کسی کا یہ کہنا مجسمے کے حق میں زندگی ثابت ہوا: اسے نصب رہنے دو ، یہ اسلام کے قریب تھا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔