ٹی وی اینکر: اب خبر نہیں، سٹائل اہم ہو گیا ہے

ایک زمانے میں اینکر کی دی گئی خبر پر لوگ آنکھیں بند کر یقین کرتے تھے، مگر اب اینکر کی توجہ ہیجان پیدا پر مرکوز ہو گئی ہے۔

ٹی وی صحافت کے معیار، انداز اور پیش کش میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں (اے ایف پی)

پی ٹی وی سے پرائیوٹ چینلوں تک پاکستان میں بھی دیگر ممالک کی طرح نیوز یا خبروں کی پروڈکشن کے حوالے سے ایک بڑا تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔ پرائیوٹ چینلز کی دھوم جب پاکستان میں مچی تو جہاں اینٹرٹینمنٹ سین بدلا وہیں خبروں کی پروڈکشن بھی بدلی۔

یہ تبدیلی ایڈیٹوریل کے حساب سے بھی اور اپنی طرز کے لحاظ سے بھی آئی۔ جہاں ایک طویل عرصے تک ٹی وی دیکھنے والے علاقائی، انگریزی اور اردو زبان میں ایک ٹھہرے ہوئے انداز اور بیانیے کے عادی تھے، ثریا شہاب، اظہر لودھی، ماہ پارہ صفدر، عشرت فاطمہ، شائستہ زید اور خالد حمید جیسی شخصیات کو دیکھنے، سننے اور ان کی خبروں پہ آنکھیں بند کر کے یقین کیا کرتے تھے، وہیں نجی چینلز کو ملنے والے لائسنسوں نے جیسے خبروں دنیا میں ہیجان برپا کر دیا۔

ایک نیوز اینکر ٹی وی دیکھنے والوں کے لیے کیا تاثر رکھتا ہے، ٹی وی اور ریڈیو کے منجھے ہوئے صحافی شاہ زیب جیلانی نے اس کو یوں بیان کیا، ’نیوز اینکر اور پروگرام اینکر کو الگ الگ انداز میں دیکھنا چاہیے، نیوز اینکر صداقت، سچائی اور ٹرسٹ کے پلڑے میں تولا جاتا ہے، اس کی شخصیت بہت زیادہ اہم نہیں ہوتی بلکہ اس کی خبر اس کا بیان کردہ مواد لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔‘

لیکن جس انداز میں آج خبروں کی پروڈکشن کی جاتی ہے شاید ایسا نہ ہو، نیوز اینکر کا کانٹیںٹ، اس کی ادائیگی اور اس کی خبر کے ساتھ جڑت اتنی اہم نہیں ہوتی جتنا اس کا سٹائل ہوتا ہے، اب شاید خبر سنی کم اور دیکھی زیادہ جاتی ہے۔

معروف صحافی و مصنف عنبر خیری اس بارے میں پی ٹی وی کی نیوز پروڈکشن کو آج بھی سراہتے ہوئے کہتی ہیں، ’نیوز اینکر ہو یا پروگرام اینکر اس کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے، پی ٹی وی کی ٹریننگ میں آج بھی خبروں میں ہیجان نہیں ہوتا لیکن پرائیوٹ چینلز میں نیوز اینکر یا نیوز ریڈر خبر کو جس انداز میں پیش کرتے ہیں وہ یقیناً ان کے چینلز کی ڈیمانڈ کو پورا کرتے ہیں لیکن اس میں نیوٹرل ہونے کا عنصر گمشدہ لگتا ہے۔ نیوز اینکر کی شخصیت ٹھہراؤ اور اتھارٹی ڈیمانڈ کرتی ہے۔ پی ٹی وی کا اپنا ایک ٹھہرا ہوا انداز ہے۔ جو دیکھنے اور سننے میں گراں نہیں گزرتا۔‘

لیکن کیا پرائیوٹ چینلز نے خبروں اور نیوز پروگراموں کو اینکر سے جوڑ دیا ہے، کیا اینکر کا کردار خبر سے بڑا ہو گیا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سوال کے جواب میں جیو ٹیلی وژن کی سینیئر پروڈیوسر منزہ صدیقی نے کہا، ’جو نیوز اینکر کہلانے لگے ہیں وہ بنیادی طور پہ نیوز ریڈر ہوتے ہیں اور جو کرنٹ افیئرز کے پروگرام کرتے ہیں وہ پروگرام اینکر ہوتے ہیں۔ جو ہمارے اس وقت بڑے بڑے نیوز پروگرام اینکر ہیں، حامد میر، سہیل وڑائچ، نسیم زہرا جیسے نام یہ صحافتی بیک گراونڈ رکھتے ہیں، ان کی گروتھ کا انداز یکسر مختلف ہے اور نیوز ریڈر کا مختلف ہے۔ نیوز ریڈر کے لیے ہم نے صرف کم عمر بچے جو سکرین پہ اچھے نظر آئیں بس یہی معیار رکھا ہوا ہے۔ ماضی کے نیوز ریڈر اپنے تجربے کے ساتھ مقرر ہوا کرتے تھے۔ ان کے انداز سے یہ نہیں لگتا تھا کہ وہ کسی دوسرے کی لکھی خبر پڑھ رہے ہیں۔‘

نیوز اینکر بھی ہر خبر کے ساتھ ایک مخصوص لہجے کو اپناتے نظر آتے ہیں جو خبر کی غیر جانبداری سے میل نہیں کھاتا۔ جب تک پروگرام اینکر دو مہمانوں کا آپس میں ’تصادم‘ نہ کرا دیں پروگرام ’جمتا‘ نہیں ہے۔

اسی سوال پر شاہ زیب جیلانی نے انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ذاتی رائے یا نظریہ اہم ہوتا ہے۔ نیوز پروگرام اینکر ہی چلاتے ہیں، ان کا نظریہ ان کی بات کا وزن ہر اینکر کے مختلف فالوؤر بناتا ہے، چاہے وہ حامد میر ہوں یا کاشف عباسی۔ ان کے پروگرام کی ریٹنگ ان کے کامیاب ہونے کا پیمانہ ہے اور یہ دنیا کے ہر چینل پہ ہوتا ہے۔ ایسے میں فالوؤر یہ نہیں دیکھتے کہ جرنلزم کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں یا نہیں بلکہ وہ اپنی پسند کے اینکر کے ذاتی تبصرے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔‘

جہاں تک رہی بات ان پروگراموں میں تصادم کا سماں باندھنے کی تو جیو ٹی وی کی منزہ صدیقی کا ماننا تھا کہ ’آن سکرین جب دو مخالف رہنما اختلافات میں جاتے ہیں جو ریٹنگ تو بڑھتی ہے لیکن ڈیجیٹل میڈیا کے آنے کے بعد سے ایسے آن سکرین تصادم کم ہوئے ہیں، کیونکہ لوگوں کو یہ احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ اس سے اچھے لڑائی جھگڑے سوشل میڈیا پہ مل جاتے ہیں۔ اینکرز کو اپنے کام، اپنے کانٹینٹ اور اپنی پریزنس پہ کام کرنا ہوتا ہے تاکہ پروگرام ان کی پہچان سے مقبول ہوں۔ پروگرام اینکر اکثر کتنے بھی منجھے ہوئے ہوں وہ سوال کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ یعنی جرح نہیں کرتے۔

فالوؤر یہ نہیں دیکھتے کہ جرنلزم کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں یا نہیں بلکہ وہ اپنی پسند کے اینکر کے ذاتی تبصرے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔

’ریٹنگز کے لیے اینکر کی شکل پہ بالکل زیادہ زور دیا جاتا ہے، خبریں، اینکر کی ذمہ داری نہیں ہوتیں ایک پوری ٹیم ان کو مواد تیار کر کے دیتی ہے تو اینکر کی بڑی توجہ صرف اپنی شخصیت کے ظاہری نکھار پہ ہوتی ہے۔ لیکن نوجوان اینکرز کے لیے ضروری ہے کہ کانٹیںٹ کے حوالے بھی سے اپنی تیاری کیا کریں۔‘

پاکستان میں ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے جو ٹی وی دیکھا کرتی تھی لیکن ڈیجیٹل میڈیا نے اب یہ ناظرین اب پنی طرف راغب کر لیے ہیں۔

پی ٹی وی کا روایتی انداز، نیوز ریڈر اور نیوز اینکر کا فرق اور اس کی شخصیت کا حصار اپنی جگہ لیکن موجودہ دور کہ جب ’اے آئی جینیریٹڈ‘ مواد اور چہرے دیکھے جانے لگ جائیں گے ایسے میں نیوز اور پروگرام اینکر کا مستقبل کیا ہو گا۔ اس وقت بھی ایک مخصوص عمر کے افراد ٹی وی دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو نیوز پروگرام اور خبریں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن نوجوان ڈیجیٹل میڈیا کی طرف بڑا جھکاؤ رکھتے ہیں، جو ’شخصیت ‘ کو اہم سمجھتے ہیں۔ وہ چینل کو نہیں دیکھتے۔

آنے والے’اے آئی جینیریٹڈ‘ دور میں کی جب نیوز کا طرز بدلنے کو ہے اینکرز کا مستقبل کیا ہو گا، منزہ صدیقی سمیت دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ ’نیوز ریڈر سے زیادہ جرنلسٹ کی ضرورت ہو گی۔ ایسے اینکرز جو اپنے کام کو پہچانتے ہوں۔ اور وہ اپنے چینل بنائیں۔ لہٰذا جو نوجوان اس فیلڈ میں آنا چاہتے ہیں انہیں شکل سے زیادہ اپنی صحافیانہ مہارت کو مستحکم کرنا ہو گا۔ ڈیجیٹل میڈیا پہ فلٹر لگا لیے جاتے ہیں لیکن اے آئی میں تو آپ خود بھی ایک خوش شکل کردار تخلیق کر سکتے ہیں جو خبریں پڑھ رہا ہو لیکن دیکھنے والوں کی انس ہونے میں وقت لگے گا۔ اب نوجوانوں کو اس فیلڈ میں نیوز اینکر نہیں بلکہ صحافی بن کے قدم رکھنا ہو گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ