ایف ایم حسین، مانک دا، سوشلسٹ انڈیا اور میرے محترم

مجھے اب کیا کہنا ہے؟ کافی کا ذائقہ، سوندھا پن اپنی مٹی سا، موگرے کی مہک اور زندگی بھر کا اثر چھوڑ دینے والی کسی فلم جیسی کیفیت اگر ایک کتاب میں مجسم ہو سکتے ہیں، تو وہ بس یہی ہے، میری بنیادوں میں اب تک کی آخری اینٹ ۔۔۔ میرے محترم!

75 فٹ لمبی اور 13 فٹ اونچی لال اینٹوں کی بنی دیوار ہے جو ہموار چلتے چلتے ایک جگہ سے تھوڑی سی اٹھ گئی ہے، یعنی اینٹیں بے ترتیب ہو گئی ہیں، دیوار کی چنائی میں فرق آ چکا ہے۔

دراصل اس دیوار کی بنیادوں میں ایک کتاب موجود ہے، کافکا مصنف ہیں اور کتاب کا نام ’دی کاسل‘ ہے۔ یہ پروجیکٹ 2007 میں ایک میکسیکن آرٹسٹ نے بنایا اور مقصود یہ بتانا تھا کہ صرف ایک کتاب آپ کی شخصیت بنانے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے۔

اپنے آپ کو دیکھوں تو ایسی دیوار ہوں کہ جسے اُسارنے میں اینٹوں کی بجائے کتابیں ہی دھری ہوئی ہیں لیکن آخری اینٹ مجھے ’لنگر خانہ‘ دکھائی دیتی ہے۔

2018 تھا اور یہ خاکے تھے جاوید صدیقی کے لکھے ہوئے، پھر ڈھونڈ ڈھانڈ کر ان کی دوسری کتاب پڑھی اور اب ’میرے محترم‘ کو سینے سے لگائے بیٹھا ہوں کہ یہ ان کی ایسی تمام تحریروں کا مجموعہ ہے اور ابھی 2024 میں جہلم بک کارنر سے آئی ہے۔

’امید بڑی خوبصورت ہوتی ہے، اور بہت ظالم بھی۔ کالج کی اس حسین لڑکی کی طرح جس پہ ہر لڑکا عاشق ہوتا ہے اور وہ ہر روز سب کو ایک مسکراہٹ اور بہت سے خواب دے کر چلی جاتی ہے۔ بے کس صاحب بھی امید کے مارے ہوئے تھے۔‘ یہ ایک جملہ تھا اس کتاب سے، یہاں کئی رنگ ملیں گے آپ کو، خوشی، غم، یاد، بے بسی، کم مائیگی، غربت، لاپروائی، امارت، بالی وڈ لائف سٹائل، سبھی کچھ ملتا ہے یہاں اور ایسے ہی پیارے جملوں میں پرویا ہوا۔

عبدالحمید بے کس کا خاکہ ایک ایسے مخلص اور شریف انسان کی کہانی ہے جو ہم میں سے ہر ایک کی زندگی میں ہوتا ہے لیکن اکثر ہم اسے اگنور کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کوئی ایسا دوست جو بس غیر محسوس سا، شریف سا یا عام سا ہو، باقی سب کا خیال رکھتا ہو، اس کی موجودگی محسوس نہ ہوتی ہو اور نہ اس کا جانا محسوس ہو لیکن بیٹھ کر سوچا جائے تو زندگی میں کئی ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات نظر آ جائیں جو بار بار اس کی یاد دلائیں۔

گلزار، دلیپ کمار، فاروق شیخ اور ضیا محی الدین سمیت کئی بڑے ناموں سے آپ یہاں دوبارہ ملیں گے، ابھی دیکھیں کہ ستیہ جیت رے کو جاوید صاحب نے کیسے یاد کیا؛

’زبان کوئی بھی ہو، لفظوں کی اپنی موسیقی ہوتی ہے، یہ موسیقی صحیح ہونی چاہیے۔ اگر ایک سُر غلط لگ گیا تو پورا سین بے معنی ہو جاتا  ہے۔‘ فلم میکنگ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک، رے صاحب کے نزدیک یہ تھا۔ انہیں سب پیار سے مانک دا کہتے تھے۔

پاتھر پنچالی ان کی تین شاہکار فلموں کی سیریز میں سے پہلی فلم تھی۔ اس فلم کو مکمل کرنے میں ان کی بیگم کے زیور بھی بک گئے لیکن یہ ان کی لگن تھی رے صاحب کے ساتھ، اور لگی میں سونا نہیں دیکھا جاتا۔

اپنے کام سے مانک دا اتنے مخلص تھے کہ چار سیکنڈ کے سین کو بھی جب تک پرفیکٹ نہیں کر لیتے تھے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ پاتھر پنچالی کے بعد اپور سنسار آئی تو ایک صحافی نے پوچھا کہ اس فلم میں تو اتنے سارے شاٹس گھوم پھر کر لیے گئے ہیں جب کہ پاتھر پنچالی میں کیمرہ ایک ہی جگہ ہوتا تھا، آپ نے ٹیکنیک کیوں بدلی، رے صاحب کا سیدھا سادا جواب تھا، ’اس وقت میرے پاس ٹرالی نہیں تھی۔‘ ایسے بہت سے چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جنہیں ملا کر جاوید صاحب نے رے کی تصویر میں رنگ بھر دیے ہیں۔

ایف ایم حسین صاحب کا خاکہ ایک خانہ بدوش درویش کی داستان ہے۔ وہ آدمی جو اچھا بھلا ویل سوٹڈ ہو کر بھی ننگے پاؤں گھومتا تھا۔ جو بھارت کا مشہور ترین مصور تھا اور کسی چھپر ہوٹل میں جا کر بلاتکلف چائے پی لیتا تھا۔ دل کا شہزادہ تھا، زمین سے رشتہ نہ توڑنے کے چکر میں جوتوں کے بغیر سردی گرمی گھومتا رہتا تھا۔

مادھوری اور ان کے بارے میں کہنے والے آج تک صفحے کالے کر رہے ہیں لیکن وہ ہمیشہ ہنس کر ٹال دیتے تھے۔ انہیں مادھوری کی صورت میں ایک مکمل عورت دکھائی دیتی تھی۔ یہاں تک کہ مادھوری میں انہیں ماں کی پرچھائیں بھی ملتی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں کہنے لگے کہ ’فلم تو میں شروع سے بنانا چاہتا تھا لیکن اس میں 30 برس کی دیر تو صرف مادھوری کے پیدا اور جوان ہونے کی وجہ سے ہوئی۔‘

خیر پھر حسین صاحب کے ساتھ بڑے فن کاروں والا سلوک شروع ہوا اور آخر کار انہیں ملک چھوڑ کر جانا پڑا، قطر گئے، وہاں کی شہریت ملی اور ایک تناور درخت اپنی مٹی چھوڑنے کے بعد کم ہی جی پایا۔

شمع زیدی بھی ایک کردار ہیں اس کتاب میں، وہ آرٹ کریٹیک رہیں، امراؤ جان ادا، شطرنج کے کھلاڑی، زبیدہ اور کئی دوسری فلموں کے مکالمے لکھے۔ جاوید صاحب لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ شمع زیدی کو کسی ایسی ورکشاپ میں بلایا گیا جہاں عورتوں کے مسائل پر بات ہونی تھی۔ تقریباً سو لوگ موجود تھے جن میں صرف پانچ عورتیں تھیں۔ وہ کہنے لگیں، ’جب تک مرد عورتوں کے بارے میں سوچتے رہیں گے، عورتوں کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ مجھےاور کچھ نہیں کہنا۔‘

’شمع میری محبوبہ نہیں ہیں مگر وہ میری ہم خیال، ہم قدم، ہم قلم، ہم نوا اور ہمدرد ہیں۔‘ کیسا پیارا اور بے ساختہ جملہ ہے!

اکبری بوا خاکے سے زیادہ ایک کہانی ہے۔ بلکہ پوری آپ بیتی ٹائپ کا خاکہ ہے۔ ایک عورت کا خاکہ جن کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا، لیکن وہ پرعزم رہیں، محنت مزدوری کرتی رہیں، کبھی کسی سے مدد نہیں مانگی بلکہ وہ لوگ جنہوں نے ان کو برے حالوں پہنچایا، ان کی بھی ہمیشہ مدد کی۔ ایسی عورت جو بچہ نہ ہونے پر سات برس بعد خود اپنی پسند سے اپنی سوتن لائے اور اس کی ایسے خدمت کرے کہ جیسے کوئی اپنی ماں کی کرتا ہو گا، تو اس کا ظرف کیسا ہو گا؟ باقی خاکے ایک طرف اور یہ ایک خاکہ ایک طرف۔

کیفی اعظمی صاحب کی شگفتہ بیانی کے بہت سے قصے یہاں موجود ہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے پیٹ کا آپریشن کروایا، ڈاکٹر نے کہا منہ بند کریں اور ناک سے سانس لیجیے، کہنے لگے، منہ میرا نہیں بال ٹھاکرے کا بند کرواؤ۔ ’سوشلزم، شاعری، شراب، شوکت، شبانہ اور شریر بچے، ان کی دنیا میں بس یہی تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ڈرامے بھی بہت سے لکھے۔ بقول ان کے، اچھا ڈرامہ وہ ہوتا ہے جسے دیکھ کر دنیا اچھی لگنے لگے۔ کیفی صاحب کو فالج ہوا، لیکن وہ فالج کو ہو گئے۔ تیس برس سے زیادہ اس بیماری کے ساتھ روزمرہ معاملات چلاتے رہے۔ پھر جب مرنا لکھا تھا تو تین سیکنڈ نہیں ملے۔‘

اچھی تحریر کو آخر تک جاندار کیسے رکھتے ہیں، دیکھیں جاوید صدیقی نے کیفی اعظمی کا خاکہ کیسے ختم کیا؛

’انہوں نے گلا صاف کیا، ایک لمبی سانس لی اور کھرکھراتی ہوئی مگر اونچی آواز میں بولنا شروع کیا۔ سن لیجیے۔ میرا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے۔ میں غلام ہندوستان میں پیدا ہوا، آزاد ہندوستان میں زندگی گزاری اور سوشلسٹ ہندوستان میں مرنا چاہتا ہوں۔

’سوشلسٹ ہندوستان کا تصور ایک خوب صورت خواب تھا جو کیفی صاحب کے ساتھ اور بھی لاکھوں آنکھوں نے دیکھا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر آنکھیں بند ہو چکی ہیں۔ خواب ابھی تک خواب ہے مگر مجھے یقین ہے کیفی صاحب اب بھی کہیں، کسی دنیا میں امید کی جھلملاتی شمع کو دونوں ہاتھوں سے حلقہ کیے بیٹھے ہوں گے:

آج تم کچھ نہ کہو
آج میں کچھ نہ کہوں
بس یونہی بیٹھے رہو
ہاتھ میں ہاتھ لیے
غم کی سوغات لیے
گرمی جذبات لیے
کون جانے کہ اسی لمحے میں
دور پربت پہ کہیں برف پگھلنے ہی لگے .....!‘

مجھے اب کیا کہنا ہے؟ کافی کا ذائقہ، سوندھا پن اپنی مٹی سا، موگرے کی مہک اور زندگی بھر کا اثر چھوڑ دینے والی کسی فلم جیسی کیفیت اگر ایک کتاب میں مجسم ہو سکتے ہیں، تو وہ بس یہی ہے، میری بنیادوں میں اب تک کی آخری اینٹ ۔۔۔ میرے محترم!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ