بلوچ خواتین کے مسائل کی عکاسی کرتی ’بلوچ مونا لیزا‘

گوادر میں منعقدہ کلچرل گالا میں ایک مسکراتی خاتون کی پینٹنگ دیکھی۔ مسکراہٹ میں اس کی مشکلات اور رنج نمایاں نظر آئے۔

گوادر یونیورسٹی میں دو روزہ بزنس اور کلچرل گالا کے دوران ایک سٹال کا منظر (یونیورسٹی آف گوادر فیس بک پیج)

پاکستان میں کچھ ہی جگہیں ہیں، جن سے میں عشق میں مبتلا ہو چلا ہوں اور جب بھی موقع ملتا ہے، ان جگہوں کا رخ کرتا ہوں اور ان جگہوں میں سے ایک ہے گوادر۔

اس کی خوبصورتی، نیلا سمندر اور سادہ لوگ تو پسند ہیں ہی لیکن اس کے علاوہ یہاں کے نوجوانوں سے میں بہت متاثر ہوں۔ یہ نوجوان نہ صرف پڑھے لکھے بلکہ سیاسی شعور رکھنے کے علاوہ اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت فوکسڈ ہیں۔

اس بار جب میں گوادر گیا تو معلوم ہوا کہ گوادر یونیورسٹی میں دو روزہ بزنس اور کلچرل گالا منعقد ہوا ہے اور اس کا آخری روز چل رہا ہے۔ گوادر یونیورسٹی کے کیمپس کے باہر پہچا تو طلبہ اور لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور لوگ جوق در جوق چلے آ رہے تھے۔

باہر لگے کیمپ میں کھانے پینے کے سٹال لگے ہوئے تھے۔ داخل ہوتے ہی کانوں میں گانے کی آواز آئی تو دیکھا کہ ایک سکول کے چند بچے گٹار لیے بلوچی گانا گا رہے تھے اور موبائل فون ان کے ارد گرد ایسے تھے، جیسے آسکرز میں ریڈ کارپٹ کے باہر کیمرے لگے ہوتے ہیں۔ ہر ایک ویڈیو بنا کر ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ان کے بچوں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ گانا کس بارے میں تھا، اس کے بول کیا تھے؟ اس سے قطع نظر میں کافی دیر تک ان بچوں کا گانا سنتا رہا اور محظوظ ہوتا رہا۔

چائے کا سٹال دیکھ کر اس کی جانب رخ کیا جہاں یونیورسٹی کی دو لڑکیاں چائے فروخت کر رہی تھیں۔ ان سے قیمت پوچھی تو ایک نے آدھی انگلش اور آدھی اردو میں جواب دیا کہ ’چائے کی قیمت تو 70 روپے رکھی تھی لیکن لوگوں کا رش دیکھ کر ہم نے اس کی قیمت 100 روپے کر دی ہے۔‘ میں نے ان کی بات سن کر اس سے پوچھا کہ ’کیا آپ مارکیٹنگ پڑھ رہیں ہیں؟‘ تو انہوں نے مسکرا کہا کہ وہ آرٹس کی طالبہ ہیں۔ 100 روپے نکالے، چائے لی اور ایک گھونٹ لینے کے بعد میں نے کہا کہ ’واقعی بڑی اچھی چائے ہے‘ تو کہنے لگیں: ’آپ تو لیٹ ہو گئے ہیں ورنہ نوڈلز تو بہت ہی مزے کے تھے، جو اب ختم ہو گئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاید پتلون اور ٹی شرٹ پہنے اور سن گلاسز لگائے شخص کو دیکھ کر یونیورسٹی کے دیگر طلبہ اور طالبات بھی مجھ سے بات کرنے آ گئے۔ گوادر سے متعلق میرے تاثرات کے بارے میں پوچھنے لگے اور اسلام آباد میں بلوچستان کے بارے میں پہنچنے والی معلومات کے بارے میں سوال جواب کا سیشن شروع ہو گیا۔

کافی دیر بات چیت کے بعد میں نے رخصت چاہی اور رخ کیا، آرٹس کے حصے کا جہاں پر طلبہ کی بنائی ہوئی پینٹنگز اور دیگر اشیا فروخت کے لیے رکھی ہوئی تھیں۔

ایک نوجوان آرٹسٹ نے کہا کہ وہ کام بھی کرتے ہیں اور وقت ملتا ہے تو سکیچز بناتے ہیں۔ ان کے سکیچ اتنے زندہ تھے کہ میں ان کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ ان میں بلوچ رہنماؤں کے سکیچ تھے اور ایک سکیچ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا بھی تھا۔ اس نوجوان نے ایک ایک سکیچ کے پیچھے کہانی سنائی۔ اس سے آگے بڑھا تو ایک بہت ہی عمدہ پینٹنگ پر نظر پڑی۔ میں نے پوچھا کہ یہ کس نے بنائی؟ تو ایک آرٹسٹ آگے بڑھی اور عمدہ انگریزی میں بتایا کہ جس نے یہ بنائی ہے وہ یہاں نہیں ہے لیکن ہم ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ 

اصل میں وہ پینٹنگ تھی ایک خاتون کی، جنہوں نے بلوچی لباس پہن رکھا تھا۔ اس آرٹسٹ نے بتایا کہ اس پینٹنگ کا خیال لیونارڈو ڈا ونچی کی پینٹنگ مونا لیزا سے لیا گیا ہے۔ ’مونا لیزا کی مسکراہٹ اداسی میں تبدیل ہو جاتی ہے جیسے جیسے آپ اس سے دور جاتے ہیں۔‘ اس نے بتایا کہ اس پینٹنگ میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح بلوچ عورت مشکل میں گھری ہے اور اگرچہ اس تصویر میں یہ خاتون مسکرا رہی ہے لیکن اسی مسکراہٹ میں اس کی مشکلات اور رنج نمایاں ہیں۔

اگرچہ میں اس سٹال کے بعد سائنس کے سیکشن میں گیا جہاں طلبہ و طالبات نے مختلف سٹالز لگا رکھے تھے لیکن میرے سامنے اس بلوچ خاتون کا عکس ہی آ رہا تھا۔ میں اس میلے میں آئے ہوئے ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی کی جانب دیکھ رہا تھا اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ کو پڑھنے کی کوشش کرتے کرتے وہاں سے نکل آیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ