لیبارٹری میں تیار کردہ ’مرر بیکٹیریا‘ زمین پر زندگی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، ماہرین

معروف سائنسدانوں کے ایک بین الاقوامی گروپ نے ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ لیبارٹری میں تیار کردہ ’مرر بیکٹیریا‘ زمین پر تمام زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

کولائی قسم کا گرام نیگیٹیو بیکٹیریا تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے (اینواتو)

معروف سائنسدانوں کے ایک بین الاقوامی گروپ نے ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ لیبارٹری میں تیار کردہ ’مرر بیکٹیریا‘ زمین پر تمام زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

زندگی کے بنیاد سمجھے جانے والے تمام مالیکیولز جیسے ڈی این اے، پروٹینز اور کاربوہائیڈریٹس میں ایک منفرد ساختی خصوصیت ہوتی ہے جو ابھی تک سائنسدانوں کو پریشان کرتی ہے۔

ان میں وہ ہوتا ہے، جس کو ساختی عدم توازن، یا چیرلٹی کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ آئینے کی اپنی تصویر کی طرح دو مختلف شکلوں میں موجود ہوتے ہیں، انسانی ہاتھ کے بائیں اور دائیں ورژن کی طرح ’دائیں ہاتھ‘ مالیکیولز سے بنتے ہیں جبکہ پروٹین ’بائیں ہاتھ‘ امینو ایسڈ سے بنتے ہیں۔

ڈی این اے اور آر این اے ’دائیں ہاتھ‘ کے مالیکیولز سے بنتے ہیں جبکہ پروٹین ’بائیں ہاتھ‘ کے امینو ایسڈز سے بنتے ہیں۔ زندگی کے مالیکیولز کی یہ چیرلٹی یا دستکاری ان کی کیمیائی ردعملیت اور زندگی کے دوسرے مادوں کے ساتھ تعاملات متعین کرتی ہے۔

’مرر بیکٹیریا‘، جو زندگی کی فرضی مصنوعی شکلیں ہیں، ’بائیں ہاتھ‘ سے بنائے جا سکتے ہیں۔ سائنس دانوں نے نوٹ کیا کہ یہ آئینہ دار حیاتیات بنیادی طور پر تمام معلوم زندگی سے مختلف ہوں گے اور اگر احتیاط سے منظم نہ کیا گیا تو ماحولیاتی نظام کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لیے بھی اہم خطرہ بن سکتے ہیں۔

یہ مصنوعی بیکٹیریا، اپنی منفرد خصوصیات کے ساتھ، وائرس اور جراثیم جیسے قدرتی شکاریوں سے بچ سکتے ہیں جو بیکٹیریا کی آبادی کو کنٹرول میں رکھتے ہیں.

امریکہ کی پٹسبرگ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے مائیکروبائیولوجسٹ وان کوپر کا کہنا ہے کہ ’سنتھیسائزڈ آئینہ دار مائیکروب نہ صرف جانوروں اور ممکنہ پودوں کو نظر نہیں آتا بلکہ دیگر جراثیموں کو بھی نظر نہیں آتا، جن میں وائرس بھی شامل ہیں جو اس پر حملہ کر سکتے ہیں اور اسے مار سکتے ہیں۔‘

سائنس دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ یہ اس فرضی حیات کی شکلوں کو ماحولیاتی نظاموں کے درمیان آسانی سے پھیلنے کے قابل بنا سکتا ہے، جس سے انسانوں، جانوروں اور پودوں کو مسلسل انفیکشن کا خطرہ ہو گا۔

محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ خطرہ فی الحال قیاس آرائیوں پر مبنی ہے لیکن ان امکانات پر محتاط غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سائنسی پیش رفت کو عوامی تحفظ سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔

یونیورسٹی آف مانچسٹر سے تعلق رکھنے والے اور مصنوعی حیاتیات کے معروف سائنسدان پیٹرک کائی کا کہنا ہے کہ ’یہ بیکٹیریا ممکنہ طور پر مدافعتی قوت سے بچ سکتے ہیں، قدرتی شکاریوں کے خلاف مزاحمت کر سکتے ہیں اور ماحولیاتی نظام میں خلل ڈال سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر کوپر نے کہا، ’زندگی کی یہ شکل کبھی موجود نہیں رہی یا اس کا ارتقا نہیں ہوا ۔ نتیجتا، تمام حیاتیاتی تعاملات مختلف ہوں گے یا ممکنہ طور پر کام نہیں کریں گے۔‘

ایک مرر بیکٹیریم میں، ڈی این اے اور پروٹین جیسے تمام بلڈنگ بلاک مالیکیولز کو ان کے آئینے کی تصویر کے ورژن سے تبدیل کردیا جاتا ہے۔ وہ قدرتی طور پر موجودہ زندگی سے پیدا نہیں ہو سکتے ہیں لیکن لیبارٹری میں مصنوعی طور پر بنائے جا سکتے ہیں۔

لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے کے لیے ’مصنوعی خلیوں کی تحقیق میں خاطر خواہ پیش رفت‘ کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ اس طرح کی زندگیوں کو تیار کرنے کی صلاحیت کئی دہائیوں دور ہوسکتی ہے، لیکن محققین نے پالیسی سازوں، سائنسدانوں، صنعت، سول سوسائٹی اور عوام کو شامل کرتے ہوئے ایک محفوظ راستہ بنانے کے لیے بات چیت کرنے کی درخواست کی ہے۔

ڈاکٹر کائی کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ مرر بیکٹیریا اب بھی ایک نظریاتی تصور ہیں اور ایسی چیز ہے جسے ہم ممکنہ طور پر چند دہائیوں تک نہیں دیکھ سکیں گے، لیکن ہمارے پاس خطرات پیدا ہونے سے پہلے ان پر غور کرنے اور ان سے نمٹنے کا موقع ہے۔‘

سائنسدانوں نے رپورٹ میں کہا، ’ہم اس منظرنامے کو نظر انداز نہیں کر سکتے جس میں ایک مرر بیکٹیریا متعدد ماحولیاتی نظاموں میں ایک حملہ آور نوع کی حیثیت سے کام کرتا ہے، جو پودوں اور جانوروں کی کئی اقسام، بشمول انسانوں میں وسیع پیمانے پر مہلک انفیکشنز کا سبب بنتا ہے۔‘

سائنس دانوں، جن میں امیونولوجی، پلانٹ پیتھالوجی، ایکولوجی، ارتقائی حیاتیات، بائیو سکیورٹی اور سیاروں کی سائنس کے ماہرین شامل ہیں، نے امید ظاہر کی کہ وہ ایسے بیکٹیریا پر تحقیق کی رہنمائی کریں گے جبکہ ’لوگوں، جانوروں اور ماحول کی حفاظت‘ کو ترجیح دیں گے۔

محققین کا کہنا تھا کہ کچھ متعلقہ ٹیکنالوجیز جو براہ راست مرر بیکٹیریا کا باعث نہیں بنتی ہیں، جیسے مرر امیج ڈی این اے اور پروٹین – ادویات میں بہتری لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لئے ابتدائی بات چیت انتہائی اہم ہے۔

ڈاکٹر کائی نے کہا، ’ہم ان تحقیقی شعبوں میں سے کسی کو بھی محدود کرنے کی سفارش نہیں کرتے۔ مجھے امید ہے کہ یہ بہت سی بحثوں کا آغاز ہوگا جس میں جلد ہی وسیع تر کمیونٹیز اور سٹیک ہولڈرز شامل ہوں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی