مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے منسلک ایپس کو دنیا بھر کے سکولوں میں فروخت کیا جا رہا ہے اور ماہرین کے سنگین شکوک و شبہات کے باوجود حکومتیں اس ٹیکنالوجی کو اپنانے میں جلدی کر رہی ہیں۔
ایجوکیشن ٹیکنالوجی کے شعبے، جسے ایڈٹیک کہا جاتا ہے، نے کرونا وبا کے دوران اس وقت زبردست ترقی کی جب سکول بند کر دیے گئے تاکہ انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے اور لاکھوں بچوں کو مجبوراً گھر پر سکرینوں کے سامنے بیٹھ کر پڑھنا پڑا۔
جب سکول دوبارہ کھلنے کے بعد طلب کم ہو گئی تو ایڈٹیک سٹارٹ اپس نے اپنی مصنوعات اور مارکیٹنگ میں مصنوعی ذہانت شامل کر کے سرمایہ کاری لانے کی کوشش کی۔
ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں، جیسے مائیکروسافٹ، میٹا اور اوپن اے آئی، نے بھی اس میں ایک موقع دیکھا اور سکولوں کو اپنی مصنوعی ذہانت سے متعلق مصنوعات فروخت کرنے یا سٹارٹ اپس کے ساتھ شراکت داری کرنے کی پیشکش کی۔
اگرچہ کئی وزارت تعلیم نے مصنوعی ذہانت کی ایپس کے استعمال کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے، لیکن اس کے خلاف آوازیں بھی کم نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کے تعلیمی ادارے یونیسکو نے گذشتہ سال کرونا کے دوران آن لائن تعلیم کے ریکارڈ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ ٹیکنالوجی کے فوری نفاذ نے ’سانحے‘ کی شکل اختیار کر لی تھی، جس سے عدم مساوات میں اضافہ ہوا اور تعلیمی نتائج مزید خراب ہو گئے۔
یونیسکو کے مَنوس انتونینِس نے اے ایف پی کو بتایا کہ مصنوعی ذہانت تعلیم میں کچھ حد تک فائدہ مند ہو سکتی ہے، لیکن اس وقت ’یہ جتنے مسائل حل کر رہی ہے، اس سے زیادہ پیدا کر رہی ہے۔‘
انہوں نے خدشات کا اظہار کیا کہ کمپنیاں ڈیٹا کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں، جانبدار الگورتھم استعمال کر رہی ہیں اور مجموعی طور پر تعلیمی نتائج کے مقابلے میں اپنے مالی مفادات کو زیادہ اہمیت دے رہی ہیں۔
انہوں نے کہا، ’میرے خیال میں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ تعلیم کو مستقبل کے صارفین تک رسائی کے لیے ایک قسم کا ’'ٹروجن ہارس‘ بنا لیا گیا ہے۔
دباؤ کم کرنا
تجزیہ کار فرم پِچ بُک کے مطابق 2021 میں وبا کے عروج کے دوران، وینچر کیپٹلسٹس نے ایڈ ٹیک (تعلیمی ٹیکنالوجی) میں 17 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی۔ لیکن یہ رقم اس سال کم ہو کر صرف تین ارب ڈالر رہ گئی ہے، جو کہ گذشتہ سال کے برابر ہے۔
تاہم، شمالی کیرولائنا سے جنوبی کوریا تک صورتِ حال مختلف ہے، جہاں محکمہ تعلیمی حکام اساتذہ کو جنریٹیو اے آئی کے استعمال کی ترغیب دے رہے ہیں۔ برطانیہ پہلے ہی ’اسپارکس میتھس‘ نامی ایک ہوم ورک ایپ لانچ کر چکا ہے، جو بچوں کی تعلیم کو ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے الگورتھم استعمال کرتی ہے۔
اس نے حال ہی میں، مزید کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد مصنوعی ذہانت کے پروگراموں پر کام کرنا ہے، تاکہ محنتی اساتذہ پر دباؤ کم کیا جا سکے۔ یہ پروگرام اساتذہ کی مدد کریں گے، خاص طور پر سبق کے منصوبے بنانے، جانچنے اور تشخیص میں۔
یورپی یونین کئی تعلیمی ایپس کی حمایت کرتا ہے، اور کئی یورپی ممالک نے ان ایپس کو آزمایا بھی ہے۔
چین کلاس روم میں مصنوعی ذہانت کے فروغ میں پیش پیش ہے اور تعلیم کو ڈیجیٹائز کرنے کی ایک قومی حکمت عملی رکھتا ہے۔ اس حکمت عملی کا مرکزی نقطہ ایک قومی تعلیمی پلیٹ فارم ہے، جو مختلف تعلیمی ٹولز اور آن لائن کورسز پر مشتمل ہے۔
تاہم، عملی صورت حال اکثر پیچیدہ رہتی ہے۔
وبا کے دوران انڈیا نے اس شعبے میں سب سے زیادہ متحرک سٹارٹ اپ ماحول کا مظاہرہ کیا، جن میں ایک کمپنی بائے جُوز بھی شامل تھی، جو کبھی دنیا کی سب سے قیمتی ایڈٹیک سٹارٹ اپ تھی۔
تاہم، جب گذشتہ ماہ نئی دہلی میں سموگ کے باعث سکول بند کرنے پڑے، تو کوئی شاندار ایپ مدد کے لیے دستیاب نہیں تھی۔
29 سالہ ٹیچر وندنا پانڈے نے اے ایف پی کو بتایا، ’ان کے لیے آن لائن کلاسز لینا ممکن نہیں ہے،‘ انہوں نے کہا کہ ان کے کئی طلبہ کے پاس نہ تو سمارٹ فون ہیں اور نہ ہی گھر پر انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی۔
بائے جُوز پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں اور وہ حالیہ عدالتی سماعت میں بمشکل دیوالیہ ہونے سے بچی۔
امیر ممالک میں مصنوعی ذہانت کی آمد کو ٹھنڈے ردعمل کا سامنا رہا ہے۔
مئی میں پیو ریسرچ سینٹر کے ایک سروے میں صرف چھ فیصد امریکی سیکنڈری سکول کے اساتذہ نے کہا کہ تعلیم میں مصنوعی ذہانت کا استعمال زیادہ فائدہ مند ہو گا۔
فرانس نے اس سال کے آغاز میں سیکنڈری سکولوں میں ایک مصنوعی ذہانت سے چلنے والی ہوم ورک ایپ ایم می آ (MIA) متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا، لیکن سیاسی بحران کے دوران خاموشی سے اس منصوبے کو ترک کر دیا۔
بہت سے برطانوی والدین بھی سپارکس میتھ نامی ایپ سے خوش نہیں ہیں۔
ایک صارف نے مقبول ’مامزنیٹ‘ فورم پر کہا، ’میں کسی ایسے بچے کو نہیں جانتا جسے یہ پسند ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور نے کہا کہ یہ ایپ ’اس مضمون کے کسی بھی لطف کو ختم کر دیتی ہے،‘ جبکہ دیگر والدین کی بڑی تعداد نے کہا کہ ان کے بچے اس ایپ سے ’نفرت‘ کرتے ہیں۔
’تقریبا تنہائی جیسا‘
انفرادی ایپس پر شکایات کے علاوہ، تعلیم کے ماہرین کو یہ شک ہے کہ کیا یہ کمپنیاں صحیح ہدف کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں۔
تقریباً تمام ایڈ ٹیک مصنوعات تعلیم کو ’ذاتی نوعیت‘ بنانے کا وعدہ کرتی ہیں، عموماً بچوں کے کام کو مانیٹر کرنے اور ان کی ضروریات کے مطابق ورک پلانز تیار کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتی ہیں۔
برطانیہ سے بیجنگ تک حکام نے اس مقصد کی تعریف کی ہے۔
لیکن انتونینس کا کہنا ہے کہ ذاتی نوعیت کے بارے میں جو بیان بازی کی جا رہی ہے اس میں ’یہ بھول جانے کا خطرہ ہے کہ بہت ساری تعلیم حقیقت میں سماجی ہوتی ہے، اور بچے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت سے سیکھتے ہیں۔‘
لیون فرز، جو ایک سابق استاد ہیں اور اب تعلیم میں جنریٹیو اے آئی پر مشاورت فراہم کرتے ہیں، وہ بھی ذاتی نوعیت کے بارے میں محتاط تھے۔
انہوں نے ای ایف پی کو بتایا، ’اے آئی کو ذاتی نوعیت کی تعلیم کے حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن یہ ایک خاص نوعیت کا ’ذاتی‘ ہے جو مجھے تقریبا ً تنہائی جیسا لگتا ہے۔
انتونینس اور فرز دونوں نے خبردار کیا کہ ٹیکنالوجی کوئی معجزہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسا آلہ ہے جو بعض مخصوص حالات میں مدد کر سکتا ہے۔ اصل، مشکل کام انسانوں کو ہی کرنا پڑے گا۔
فرز نے کہا، ’ٹیکنالوجی کے حل اساتذہ اور طلبا کے سامنے موجود بڑے سماجی، اقتصادی، ثقافتی، اور سیاسی چیلنجز کو حل نہیں کریں گے۔‘