جنوبی کوریا کی پارلیمان نے ہفتے کو صدر یون سک یول کو گذشتہ ہفتے مارشل لا لگانے کی ناکام کوشش پر عہدے سے ہٹانے کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔
صدر یون سک یول نے منگل (تین دسمبر) کی رات چار دہائیوں سے زائد عرصے میں پہلی بار مارشل لا کا اعلان کرکے اور فوجیوں اور ہیلی کاپٹروں کو پارلیمنٹ میں تعینات کر کے قوم اور عالمی برادری کو حیران کر دیا تھا، لیکن قانون ساز اس حکم نامے کو مسترد کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس کے بعد انہوں نے چار دسمبر کو اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے رپورٹ کیا کہ 300 قانون سازوں میں سے 204 نے ہفتے کو بغاوت کے الزامات پر صدر یون سک یول کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا۔
’پارلیمان کے 85 اراکین نے صدر کے مواخذے کی مخالفت میں ووٹ ڈالا جب کہ تین اراکین پارلیمنٹ سے غیر حاضر تھے اور آٹھ ووٹ کالعدم قرار دیے گئے۔‘
یون سک یول کو اب عہدے سے معطل کر دیا گیا ہے، جب کہ جنوبی کوریا کی آئینی عدالت اس پر غور کر رہی ہے کہ آیا ان کی برطرفی کو برقرار رکھا جائے یا نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب وزیراعظم ہان ڈک سو نے عبوری صدر کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔
عدالت کے پاس یون سک یول کے مستقبل پر فیصلہ سنانے کے لیے اب 180 دن ہیں۔
اگر عدالت ان کی برطرفی کی حمایت کرتی ہے تو وہ جنوبی کوریا کی تاریخ کے دوسرے صدر بن جائیں گے، جن کا کامیابی سے مواخذہ کیا گیا۔
جنوبی کوریا کی 300 پر مشتمل پارلیمنٹ میں اپوزیشن بلاک کے پاس 192 نشستیں ہیں، جب کہ یون سک یول کی پیپلز پارٹی کے پاس 108 نشستیں ہیں۔ حکمران پارٹی کے صرف آٹھ قانون سازوں کو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے ووٹ سے انحراف کرنے کی ضرورت تھی۔
سیئول پولیس کے ایک اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ صدر کو ہٹانے کی حمایت میں کم از کم دو لاکھ افراد پارلیمنٹ کے باہر جمع ہوئے تھے جبکہ سیئول کی دوسری طرف گوانگوامون سکوائر کے قریب، پولیس کے مطابق 30 ہزار افراد نے یون سک یول کی حمایت میں ریلی نکالی۔