جنوبی کوریا: سیئول کے شہریوں کو تنہائی سے بچانے کا حکومتی منصوبہ

جنوبی کوریا کے درالحکومت سیئول میں  حکام تنہائی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے مسئلے سے نمٹنے کے لیے 25 کروڑ پاؤنڈ کی لاگت سے ’لونلی  فری لیس سیئول‘ نامی منصوبہ شروع کر رہے ہیں۔

دو نومبر 2023 کی اس تصویر میں جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول کے ایک پارک میں موجود خاتون (اے ایف پی)

جنوبی کوریا کے درالحکومت سیئول میں حکام تنہائی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے مسئلے سے نمٹنے کے لیے 25 کروڑ پاؤنڈ سے زیادہ مختص کر رہے ہیں، جہاں اکیلے فرد والے گھرانوں اور بڑی عمر کے شہریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

اس منصوبے، جسے ’لونلی فری لیس سیئول‘ کا نام دیا گیا ہے، کا مقصد تنہائی کے مسئلے کو اس کی جڑ سے ختم کرنا اور جنوبی کورین دارالحکومت میں گوڈوکسا (تنہائی سے ہونے والی اموات) کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنا ہے۔

صحت اور بہبود کی وزارت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں 3,559 اور 2023 میں 3,661 افراد کی تنہائی میں اموات ہوئیں۔

وزارت صحت کے فلاحی عہدیدار نوہ جونگ ہون نے کہا: ’ایسا لگتا ہے کہ 20 اور 30 ​​کی عمروں کے لوگوں میں تنہا موت کی وجہ ملازمتیں تلاش کرنے میں ناکامی یا نوکری سے نکالا جانا تھا۔‘

’دی کوریا ہیرالڈ‘ کے مطابق اگلے پانچ سالوں میں یہ شہر 25 کروڑ پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کرے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس کا کوئی بھی باشندہ، سیئول میں رہنے والے کورین اور غیر ملکی شہری، تنہائی کا شکار نہ ہوں۔ اس اقدام میں ’سمارٹ 24 پلیٹ فارم‘ کی مدد لی جائے گی جس میں آن لائن اور آف لائن دونوں طریقے شامل ہوں گے تاکہ تمام رہائشی مدد اور مشاورت حاصل کر سکیں۔

سیئول کے میئر او سی ہون نے پیر کو ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا: ’خوشی میں کمی، خودکشی کی بلند شرح اور ڈپریشن جیسے سماجی مسائل کا تعلق تنہائی سے ہے۔‘

ان کے بقول: ’الگ تھلگ رہنا اور تنہائی صرف ذاتی چیلنجز نہیں ہیں بلکہ یہ معاشرتی مسائل ہیں، جنہیں ہم سب کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ’لونلی  فری لیس سیئول‘ بنانے کے لیے اپنے تمام انتظامی وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے پرعزم ہیں جس میں اس کی وجوہات کی روک تھام سے لے کر معاشرے میں واپسی اور مزید تنہائی کو روکنے کے لیے پیچیدہ انتظام کو یقینی بنانا شامل ہے۔‘

اس کے لیے بنائی گئی حکمت عملیوں میں سے ایک ’گڈ بائے لونلی لیس 120‘ ہیلپ لائن ہے، جو اپریل 2025 میں شروع ہونے والی 24 گھنٹے کی ہاٹ لائن ہو گی جہاں کال کرنے والوں کا تربیت یافتہ ماہرین سے رابطہ کرایا جائے گا۔

فالو اپ سپورٹ جیسے آن سائٹ وزٹ اور ہنگامی رابطے بھی اس میں شامل ہوں گے، اس  کے ساتھ وہ دوست، خاندان یا متعلقہ پڑوسی بھی دستیاب ہوں گے، جو اس حوالے سے اپنی مدد کی پیشکش کرنا چاہتے ہیں۔

اس منصوبے میں سیئول ہارٹ کنویئنس سٹورز کے نام سے کمیونٹی سپیسز کی تعمیر بھی شامل ہے تاکہ تنہا لوگوں کو سادہ کھانوں سے لطف اندوز ہونے کی جگہ فراہم کی جا سکے، جیسے انسٹینٹ رامیون جو انسٹینٹ رامین کا کورین ورژن ہے۔ اس طرح کے چار مقامات کا ابھی منصوبہ بنایا گیا ہے جو 2025 میں کھولے جائیں گے اور رہائشیوں کو ان کی سماجی تنہائی کی سطح کا اندازہ لگانے اور دستیاب ماہرین سے بات کرنے کے لیے ایک چیک لسٹ پیش کریں گے۔

حکومت اپنی سروسز کو وسعت دینے کا بھی ارادہ رکھتی ہے، جس کا مقصد تمام رہائشیوں کے لیے ذہنی صحت کو فروغ دینا ہے، جو موجودہ منصوبوں کے برعکس ہیں، جو صرف زیادہ خطرے والے گروپوں پر مرکوز تھے۔ شہر کے ایک عہدیدار نے کہا کہ آیا یہ خدمات انگریزی زبان میں بھی پیش کی جائیں گی یا نہیں اس کا تعین حتمی منصوبہ جاری ہونے کے بعد کیا جائے گا۔

یہ شہر ’سیئول 365 چیلنج‘ بھی شروع کرے گا جو شہر میں ہونے والے بڑے ایونٹس کو پوائنٹس سسٹم سے جوڑ دے گا، جس میں سیئول سکائی وے، ہان ریور کیمپنگ سائٹ یا سیئول بونیٹک پارک جیسے مقامات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ شہر الگ تھلگ افراد کی شناخت اور ان کا اندازہ کرنے کے لیے فوڈ ڈیلیوری پلیٹ فارمز کے ساتھ بھی کام کرے گا کیونکہ تنہا افراد والے گھرانوں میں ڈیلیوری سروس کے استعمال اور آرڈر کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق جنوبی کوریا میں تنہا فرد والے گھرانوں کی تعداد 2021 میں تقریباً ساڑھے 71 لاکھ سے بڑھ کر 2022 میں 75 لاکھ اور 2023 میں 78 لاکھ ہو گئی ہے۔

زیادہ عمر والے افراد کے لیے کمیونٹی پر مبنی نیٹ ورکنگ جیسے اقدامات شروع کیے جائیں گے، جس میں کھانا پکانے کی کلاسیں، ورزش کی کلاسیں یا کھانے کے ڈبوں کی فراہمی شامل ہے تاکہ انہیں سماجی تنہائی میں مدد ملے۔

جنوبی کوریا میں بڑی عمر کے افراد کے لیے فلاحی امداد کافی نہیں ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور زیادہ لاگت کی وجہ سے بیماریوں کا علاج کروانے سے قاصر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملک میں 50 سے 60 سال کے درمیان عمر کے افراد کی تعداد 2022 میں 54.1 فیصد اور 2023 میں 53.8 فیصد تھی۔

حکومتی تھنک ٹینک ’کوریا انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ سوشل افیئرز‘نے 2019 میں ایک مطالعہ کیا اور پتہ چلا کہ 19 سے 34 سال کی عمر کے تین فیصد افراد تنہائی اور گوشہ نشینی کا شکار تھے، یہ تنہائی کی ایک زیادہ شدید شکل ہے جہاں لوگ سالوں تک خود کو معاشرے سے مکمل طور پر الگ رکھتے ہیں۔

وزارت کے مطابق ملک بھر میں لگ بھگ 338,000 افراد گوشہ نشینی کا شکار ہیں جن میں سے تقریباً 40 فیصد نوجوانی میں ہی تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ تعداد 2021 میں پانچ فیصد تک پہنچ گئی تھی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ نوجوان نسل میں جنوبی کوریا کی انتہائی تنہائی ثقافتی عوامل کی وجہ سے ہے، خاص طور پر مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں جہاں زندگی کے لیے بڑے خاندان اور برادری پر مبنی نقطہ نظر کو فروغ دیا جاتا ہے، جو معاشی خوش حالی اور ایک خاندان کی معاشرے میں اہمیت کا تعین کرتا ہے۔

شہری تنظیم ’سیڈز‘ کے چیف ڈائریکٹر لی ایونائی نے این آر کو بتایا: ’والدین اپنے بچوں کو مواقع فراہم کرنے کے لیے سب کچھ دیتے ہیں اور وہ اپنے بچوں سے بہت زیادہ توقعات بھی رکھتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ان کے بچوں کو اس دولت اور سماجی حیثیت کا وارث ہونا چاہیے جو انہوں نے حاصل کی ہے۔ پرانی نسل کامیابی کے معیار، تصور اور اس طریقے کا مطالبہ کرتی ہے جس سے وہ خود گزرے تھے لیکن اکیلے محنت کرنا اب جنوبی کوریا میں سکون کی ضمانت نہیں ہے۔‘

تاہم ضروریات زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمت، زندگی کا گرتا ہوا معیار، روایتی صنفی کرداروں پر توجہ، مستحکم ملازمتوں کی دستیابی کی کمی اور کام اور زندگی کا متوازن ڈھانچہ نوجوان نسلوں کو اپنی زندگیوں میں واضح طور پر نامکمل محسوس کرنے کا باعث بنا ہے۔

ہوسیو یونیورسٹی کے سائیکالوجی کے پروفیسر کم ہیوون نے کہا کہ ’اس معاشرے میں بیکار محسوس کرنے سے مایوسی، تکلیف اور شرمندگی کا احساس ان کی رشتے بنانے کی خواہش کو کم کرتا ہے۔‘

2023 میں صنفی مساوات اور خاندان کی وزارت نے اعلان کیا کہ وہ الگ تھلگ نوجوانوں کو ماہانہ ساڑھے چھ لاکھ وون تک فراہم کرے گی، تاکہ ان کی نفسیاتی اور جذباتی استحکام اور صحت مند نشوونما میں مدد کی جا سکے۔

ان اقدامات کا مقصد ملک کے آبادیاتی بحران کو حل کرنے کی کوشش کرنا بھی ہے، جہاں جنوبی کوریا کو تیزی سے عمر رسیدہ آبادی اور 2024 میں صرف 0.68 کی متوقع کم شرح پیدائش کا سامنا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا