صدر کے دستخط سے دینی مدارس رجسٹریشن کا بل قانون بن گیا

پاکستان کے صدر آصف زرداری نے اتوار کو سوسائیٹیز رجسڑیشن ایکٹ 2024 پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد دینی مدارس کی رجسٹریشن کا بل قانون بن گیا ہے۔

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے 29 دسمبر 2024 کو سوسائیٹیز رجسڑیشن ایکٹ 2024 پر دستخط کیے (فائل فوٹو/ پی آئی ڈی)

پاکستان کے صدر آصف زرداری نے اتوار کو سوسائیٹیز رجسڑیشن ایکٹ 2024 پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد دینی مدارس کی رجسٹریشن کا بل قانون بن گیا ہے۔

ترجمان قومی اسمبلی کی جانب سے اتوار کو جاری بیان کے مطابق قومی اسمبلی اس حوالے سے جلد ہی گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کرے گی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کے تحت دینی مدارس کی رجسٹریشن سوسائیٹیز ایکٹ کے مطابق ہوگی۔

دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد ایوانِ صدر پہنچا تھا جہاں صدر آصف زرداری نے اس پر اعتراض لگانے کے بعد اسے واپس پارلیمان کو بھیج دیا تھا۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان نے ملک میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کے عمل کو محکمہ تعلیم کے بجائے سال 1860 کے سوسائیٹیز ایکٹ کے ماتحت لانے سے متعلق مطالبہ کیا تھا۔

جس کے بعد رواں ماہ 20 دسمبر کو وزیر اعظم شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان کو دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق معاملات جلد حل کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

مدارس رجسٹریشن کا معاملہ حل، وقف املاک کا ابھی باقی ہے: جے یو آئی

جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے مدارس کی رجسٹریشن کے بل کی منظور پر اظہار اطمینان کیا ہے۔

نامہ نگار عمر فیضان سے بات کرتے ہوئے سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کے اس مطالبے پر وزیر اعظم شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنا اپنا کردار ادا کیا اور افہام و تفہیم سے اس معاملے کو حل کیا جس پر تمام فریقین مبارک باد کے مستحق ہیں۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ’26ویں آئینی ترمیم کے بدلے مدارس رجسٹریشن بل نہیں منظور کروایا بلکہ اس وقت بھی ترامیم میں حکومتی 56 شقوں کو کم کر کے ہم نے 22 پر لے کے آئے۔‘

اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ مدارس رجسٹریشن اور وقف املاک کے معاملات حل کرنے کا مطالبہ ضرور رکھا تھا جس میں سے مدارس رجسٹریشن کا معاملہ حل ہو گیا ہے مگر وقف املاک کا معاملہ بھی رہتا ہے۔

اس سے قبل جمعیت علمائے اسلام املاک ایکٹ منظور ہونے کی مخالفت کر چکی ہے اور مولانا فضل الرحمان کا موقف ہے کہ اس کا تعلق وقف املاک سے ہے۔

دینی مدارس رجسٹریشن بل میں کیا ہے؟

رواں سال اکتوبر میں 26ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے حکومت کو دو تہائی اکثریت درکار تھی جس کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت سے رابطہ کیا گیا۔

انہوں نے آئینی ترمیمی بل میں سود کے نظام کے خاتمے اور دینی مدارس کی محکمہ تعلیم کے بجائے سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کا بل منظور کروانے سمیت دیگر تجاویز شامل کرنے سے متعلق مطالبہ منظور کروایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان تحریک انصاف کے دور اقتدار میں حکومت اور علما کے درمیان طے شدہ ’مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے‘ والے معاہدے کی جے یو آئی نے مخالفت کی تھی۔ تاہم یہ جماعت دو ماہ قبل سوسائٹی ایکٹ ترمیمی بل منظور کروانے میں کامیاب رہی۔

دینی مدارس رجسٹریشن بل میں سال 1860 کے سوسائٹی ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کرکے ’دینی مدارس کی رجسٹریشن‘ کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی دینی مدرسہ کسی بھی نام سے پکارا جائے، اس کی رجسٹریشن لازمی ہو گی اور رجسٹریشن کے بغیر مدرسے کو بند کر دیا جائے گا۔

بل کے مسودے کے مطابق اس ترمیمی ایکٹ 2024 کے نفاذ سے قبل قائم کیے جانے والے مدارس جو رجسٹرڈ نہ ہوں، انہیں چھ ماہ کے اندر اپنی رجسٹریشن کروانا ہو گی۔ جبکہ بل کے نفاذ کے بعد قائم ہونے والے مدارس کو رجسٹریشن کے لیے ایک سال کا وقت مہیا کیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ مدارس کو اپنی سالانہ تعلیمی سرگرمیوں کی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کروانا ہو گی اور آڈیٹر سے اپنی مالی ضابطگیوں/حساب کا آڈٹ بھی پابندی سے کروانا ہو گا۔

اس بل میں کسی دینی مدرسے کو ایسا نصاب پڑھانے یا شائع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جو ’مذہبی منافرت، عسکریت پسندی یا فرقہ واریت کو فروغ دے‘ رہا ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان