مدارس رجسٹریشن بل آگے پیچھے ہوا تو فیصلہ ایوان نہیں میدان میں ہوگا: فضل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ’ہم ایوان صدر سے شکایت کرتے ہیں آپ کا دوسرا اعتراض آئینی لحاظ سے درست نہیں،‘ وزیر قانون نے کہا کہ ’صدر کی رضا کے بغیر کوئی قانون مکمل نہیں ہوتا۔‘

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن 17 دسمبر 2024 کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں (قومی اسمبلی ٹی وی)

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن کا بل ایکٹ بن چکا ہے اور اس کا گزٹ نوٹی فکیشن کیوں نہیں ہو رہا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے منگل کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ایوان صدر سے شکایت کرتے ہیں آپ کا دوسرا اعتراض آئینی لحاظ سے درست نہیں، ہم بھی اسی مدرسے سے پڑھے ہوئے ہیں، ایوان میں 40 سال ہم نے بھی گزارے ہیں۔ ہمارے اس مطالبے کو تسلیم کیا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایاز صادق بھی ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ یہ ایکٹ بن چکا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ 21’ اکتوبر کی صبح تک یہ قانون پاس ہو چکا تھا اور جوں ہی پاس ہوا، مجھ سے کہا گیا کہ دستخط کی تقریب ایوان صدر میں ہو رہی ہے اس میں شرکت کرنی ہے، لیکن 30 منٹ بعد انہوں نے کہا کہ تقریب ملتوی ہو گئی ہے۔‘

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’28 اکتوبر کو ایک اعتراض آیا اور سپیکر قومی اسمبلی نے اسی قلمی غلط قرار دے کر اصلاح کر دی اور بل واپس بھیج دیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آئین سراہت کے ساتھ کہتا ہے 10 میں دستخط نہ ہوئے تو وہ ایکٹ بن جاتا ہے۔‘

جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ ’اس بل کو دوبارہ ایوان میں لاکر ترمیم کرنا غیر آئینی ہوگا۔ تنظیمات مدارس کا مؤقف ہے کہ یہ ایکٹ بن چکا ہے، صدر کو دوسرے اعتراض کا حق نہیں ہے۔ صدر کا دوسرا اعتراض آئینی لحاظ سے بھی درست نہیں۔ خلائی مدارس کے لیے ہمارے حقیقی مدارس کو نظر انداز مت کریں، حالات کو خوامخوا بگاڑ کی جانب مت لے جائیں۔‘

مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق: ’رجسٹریشن نہ کرنے سے مدارس ختم نہیں ہوں گے، آپ 100 سال رجسٹریشن نہ کریں، دینی مدرسہ زندہ اور برقرار رہے گا، آپ ہمارے بینک اکاؤنٹ نہ کھولیں، پیسے آئیں گے۔ خلائی مدارس کے لیے ہمارے حقیقی مدارس کا نظام برباد نہ کریں۔ ہم نے ایوان اور پارلیمنٹ سے اجازت لی ہے۔

’ہم نے واضح مؤقف دے دیا ہے کہ یہ ایکٹ ہے، ہم اسے ایکٹ تسلیم کرتے ہیں اور نوٹی فکیشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم کوئی ترمیم قبول نہیں کریں گے، آئین اور روایات کو خراب مت کریں۔ جو چیز آئین میں طے ہے اس کو ہو جانے دو، بعد میں دیکھیں گے۔‘

انہوں نے کہا ’بہت سارے ادارے اس ایکٹ کے تحت رجسٹر ہیں لیکن صرف مدارس کو کیوں نشانہ بنایا گیا، آپ چاہتے ہیں کہ علما آپس میں لڑیں، ہم آپس میں نہیں لڑیں گے، ہم نے پہلے بھی فراخدلی دکھائی ہے۔ اب چونکہ ایکٹ بن چکا ہے، لہذا اس وقت ترمیم نہیں ہو سکتی، بعد میں اگر کوئی تجویز آگئی تو اس پر بات کر سکتے ہیں۔ لیکن ایکٹ، ایکٹ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جو طے ہوا ہے ہم اسی بات پر زور دے رہے ہیں اور اس کو ہر قیمت پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر معاملہ اس سے آگے پیچھے گیا تو یقیننا پھر ایوان نہیں، میدان میں فیصلہ ہوگا۔‘

صدر کی رضا کے بغیر کوئی بل مکمل نہیں ہوتا: وزیر قانون

اس کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی سے اپنے حظاب میں کہا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن نے جو باتیں ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے۔ آئین میں جو طریقہ کار دیا گیا تمام معاملات اس کے مطابق ہونے چاہییں۔ اسی کے مطابق بل کا معاملہ نمٹایا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس موقع پر موجود اکثریت سے بل منظور کرے گا۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے انہوں نے کہا کہ ’صدر کی رضا شامل ہوئے بغیر کوئی بل مکمل نہیں ہوتا۔ ان کی طرف سے کوئی بل واپس بھجوانے کی صورت میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس پر دوبارہ غور ہو گا۔‘

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن صاحب ہمارے بڑے بھی ہیں۔ ان کے ساتھ احترام کا رشتہ ہے نہ صرف میرا بلکہ میری قیادت کا بھی ہے۔‘

مولانا فضل الرحمٰن کا مطالبہ کیا ہے؟

مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹیز ایکٹ 1860 کے تحت ہونی چاہیے۔

مدارس رجسٹریشن ایکٹ 1860 اُس وقت نافذ العمل تھا جب مدارس کی رجسٹریشن کے لیے کوئی اور قانون نہیں تھا۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نیشنل سیکورٹی پالیسی بنی جس کے تحت نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا۔

اس پلان کا ایک اہم پہلو مدارس کی اصلاحات اور اِن کو قومی دھارے میں لانا تھا۔

اس معاملے پر سٹیک ہولڈز کے مابین مشاورت کے بعد ایک معاہدہ طے پایا کہ مدارس کو محکمہ تعلیم کے اندر لایا جائے اور مدارس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم بھی سکھائے جائیں۔

معاہدے کے مطابق مدارس کوئی ایسا مواد نہیں پڑھائیں گے جو شدت پسندی کو ہوا دے۔ تمام مدارس کے بینک اکاونٹس کی نگرانی ہو گی اور ہر مدرسہ اپنے بینک اکاؤنٹس کی تفصیل دے گا۔

اسی طرح ہر مدرسہ خود کو وزارت تعلیم کے ماتحت ڈائریکٹریٹ جنرل مذہبی امور کے پاس رجسٹرڈ کروائے گا۔

یہ معاہدہ 29 اگست، 2019 میں طے پایا، جس پر مولانا فضل الرحمان اور وفاق المدارس (پانچ جو پہلے سے موجود تھے) کے علما نے  دستخط کیے تھے۔

اس حوالے سے جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ معاملہ پیچیدہ نہیں، یہ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ ہے اس لیے اس کو وزارت صنعت کے ماتحت ہونا چاہیے۔ 2019 سے پہلے بھی ایسے ہی تھا۔

انہوں نے کہا کہ سوسائٹی ایکٹ بل 2024 کی دستاویز میں لکھا ہے کہ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے سیکشن 21 میں ترمیم کے تحت دینی مدرسہ جو پہلے سے قائم ہے وہ چھ ماہ کے اندر اندر سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 2024  کے تحت لازماً رجسٹر کرائے گا۔

’اسی طرح جو مدرسہ سوسائٹی ایکٹ کے بعد بنے گا وہ ایک سال کے عرصے میں رجسٹریشن کرائے گا۔ اور یہ بھی کہ اگر دینی مدرسے کے بہت سے ضلعی کیمپس ہوں گے تو رجسٹریشن صرف مرکزی مدرسے کی ہو گی۔ ہر دینی مدرسہ اپنی سالانہ تعلیمی رپورٹ جمع کرانے کا پابند ہو گا۔‘

بل پر ایوان صدر کے اعتراضات

دستیاب معلومات کے مطابق بل کو یہ اعتراض لگا کر واپس کیا گیا کہ مدارس کے وزارت تعلیم سے وزارت صنعت میں جانے سے آڈٹ کے مسائل پیدا ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

علامہ راشد محمود سومرو کے مطابق حکومت کا کہنا ہے کہ اگر مدارس وزارت تعلیم کے ماتحت رہیں گے تو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کو اعتراض نہیں ہو گا اور اگر وزارت صنعت کے ماتحت ہوں گے تو فیٹف کو اعتراض ہو گا۔

’مدارس کو وزارت تعلیم سے منسلک کرنے کی منظوری معاہدے کے تحت ہوئی تھی‘

ڈی جی مذہبی تعلیم میجر جنرل ریٹائرڈ غلام قمر نے بتایا کہ تمام مدارس وزارت تعلیم سے منسلک کرنے کے لیے وفاقی کابینہ سے منظوری ہوئی تھی اور یہ معاہدہ حکومت اور تمام علما کے درمیان ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ معاہدے کے مطابق ڈائریکٹوریٹ مذہبی ایجوکیشن سے تمام مدارس رجسٹرڈ ہوئے۔ ’مدارس کے بینک اکاؤنٹ کھلوانے کا بھی معاہدہ ہوا تاکہ مدارس کے مالی معاونت کی فیٹف کے تحت شفیافیت بھی رکھی جائے۔ وزرات تعلیم کے زیر اہتمام ڈائریکٹوریٹ ریلجیس ایجوکیشن کا قیام عمل میں آیا۔ مدارس کی رجسٹریشن کے لیے ایک فارم بنایا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہر مدرسہ اپنی تفصیلات ریجنل ڈائریکٹر کو فراہم کرتا ہے، اس عمل میں کوئی پیسے نہیں لگتے اور دو ہفتے مدارس کی رجسٹریشن میں وقت لگتا ہے۔‘

اس سے قبل مدارس کی رجسٹریشن و اصلاحات سے متعلق ایک اجلاس سے خطاب میں انہوں نے بتایا کہ ’ڈائریکٹوریٹ مذہبی تعلیم کے اندر 16 ریجنل دفاتر ہیں۔ رجسٹرڈ مدارس کو ہم اساتذہ دیتے ہیں جس کی تنخواہیں وزارت تعلیم دیتی ہے۔

نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کی رجسٹریشن ضروری

رکن اسمبلی خرم نواز گنڈاپور نے مدارس سے متعلق ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کی رجسٹریشن ضرورت تھی۔ ایف ای  ٹی ایف میں مدارس رجسٹر کرنے کے لیے ضروری تھا۔‘

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل  ڈاکٹر راغب نعیمی کا کہنا ہے کہ ’مدارس کے نظام کو بیرونی ایجنڈے سے خطرہ نہیں، مدارس سے دہشت گردی کا لیبل ختم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست